4

سلام آباد کے مظلوم تاجر تحریر – خالد چوہدری

گذشتہ روز آئی سی ٹی کے محکمہ فوڈ کی طرف سے وفاقی دارالحکومت کے چھوٹے چھوٹے پرچون فروشوں – بیکری ۔ جنرل سٹورز – اور گھریلو استعمال کی اشیاء کا کاروبار کرنے والوں کو نوٹس بھیجوائے گئے ہیں کہ آپ فوری طور پر فوڈ ڈیپارٹمنٹ سے “فوڈ گرین” لائسنس حاصل کریں۔ ایم سی آئی کا ڈیپارنمنٹ ڈی ایم اے 1968 کے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کے ذریعے اسلام آباد میں کھانے پینے کی اشیاء کا کاروبار ریگولیٹ کرتا ہے ۔ جس کے لائسنس کے حصول کے لئے مختلف بیماریوں کی ویکسینشن کا سرٹیفیکٹ حاصل کرنا پڑتا تھا لیکن اب ایسا عمل ختم کر دیا گیا ہے۔ پھر ہول سیل مارکیٹ ریگولیٹ کرنے کے لئے مارکیٹ کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اپنے قیام کے ساتھ ہی کھانے پینے کی اشیاء کا بزنس کرنے والوں کو لائسنس بنوانے کے نوٹس جاری کئے ۔ تاجر برادری کے احتجاج پر یہ نوٹس موخر کر دئیے گئے ۔ تین سال قبل اسلام آباد فوڈ اتھارٹی پارلیمنٹ سے قانون بننے کے بعد تشکیل پائی جس کے لئے ملازمین اسلام آباد کی بجائے دیگر صوبوں سے امپورٹ کئے گئے ۔ قانون کے مطابق فوڈ اتھارٹی لاہور کی لیبارٹری کی طرز پر اسلام آباد میں جدید ترین لیبارٹری بنائے گی ۔ لیکن تین سال گزرنے کے باوجود ایسا نہ ہو سکا ۔ از خود انگلیوں سے چکھ کر ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ دودھ بھی ٹیسٹ نہیں ہو سکتا ۔ پسند نہ پسند پر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ از خود سخت ترین سزائیں اور جرمانے رکھے گئے ہیں۔ آج تک کل فوڈ اتھارٹی کے دو اجلاس منعقد ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ ماہ ہونے والے اجلاس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہے۔ کیوں کہ قانون کے مطابق اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کو اس اجلاس میں بلایا ہی نہ گیا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کی اس میں مرضی شامل نہ تھی۔ اس نے قانون کو از خود تبدیل کر دیا ہے۔ فوڈ اتھارٹی کے رولز نہ بنائے گئے ہیں۔ جرمانے بھاری رکھے گئے ہیں جس کی ملازمین میں تقسیم ہوتی ہے۔ لائسینس فیس کا کابینہ کی سطح پر منظوری درکار ہے۔ لیکن اختیارات کا ناجائز اور یک طرفہ استعمال کیا جاتا ھے ۔ افسوس کہ ابھی تک گزٹ نوٹیفیکیشن ہی جاری نہ ہو سکا ھے۔ آئی سی ٹی کے محکمہ ایکسائز نے پروفیشنل ٹیکس کے نام پر شہر بھر میں نوٹس جاری کئے ہوئے ہیں ۔
اس سے قبل کینٹ ڈویژن کا فیصلہ تھا کہ مونسیپل ٹیکس کی موجودگی میں پروفیشنل ٹیکس وصول نہیں کیا جاسکتا ۔ ایکسائز محکمہ کی پولیس طرز کی گاڑی اور باوردی اہلکار مارکیٹوں میں ایکشن لیتے ہیں ہے اور خوف ہر اس قائم کر کے تاجروں سے زبردستی لائینس وصول کرتے ہیں۔ جبکہ ان کا بھی کوئی گزٹ نوٹفیکشن نہ ہے اہلکاروں کے پاس سندھ ہائی کورٹ کا پروفیشنل ٹیکس کا فیصلہ موجود ہوتا ہے جو کہ کینٹ ایریاز کے بارے میں ہے جبکہ اسلام آباد میں کوئی کینٹ نہ ہے ۔ وفاقی حکومت کا محکمہ ٹور ازم بھی اسلام آیا، کے ریسٹورنئیس سے ٹور ازم ٹیکس زبر دستی وصول کرتا ہے اسلام آباد کے تاجر سات اقسام کے ٹریڈ لائسینس کی زد میں ہیں۔ اِن تمام کاروائیوں کے ذمہ دار امپورٹڈ افسران ہیں جن کو مال اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا ہے جو وفاقی دارالحکومت کے تاجروں کو نشانہ بنا رہے ہیں اِس شہر کا ان کو احساس ہی نہ ہے ۔ وزیر
داخله سید محسن نقوی کو ایکشن لینے کی ضرورت ھے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں