36

پہاڑی زبانوں کا دن سردار عبدالخالق وصی

پہاڑی زبانوں کا بین الاقوامی یوم منانے کے لئے اقوام متحدہ نے باقی ایام کی باقاعدہ کوئی دن تو مقرر نہیں کر رکھا لیکن 14 اپریل کو پہاڑی زبان سے محبت کرنے والوں نے اس دن کو اپنے طور پر 14 اپریل یعنی یکم بیساکھ کو “ماں بولی یعنی پہاڑی بولی” کے دن کے طور پر باقاعدہ متعارف کروانا شروع کر رکھا راولاکوٹ کے بسنیک پہاڑی زبان کے ممتاز و معروف پروفیسر ڈاکٹر محمد صغیر خان نے پہاڑی زبان پر کافی کام بھی کیا ھے متعدد کتب تصنیف کر رکھی ھیں وہ اس تحریک کے روح رواں ھی نہیں بلکہ ہمارے خطہ کشمیر کی ایک توانا آواز کے طور پر اس تحریک کو مہمیز دے رھے ھیں انکی تائید میں مختلف علاقوں سے ادیب و شاعر انکے نقش قدم پر گامزن ھیں جن میں ممتاز غزنی،ھماری بہن افشاں کیانی، علی عالت،علی احمد کیانی،اشفاق کلیم عباسی،امجد بٹ،راشد عباسی،کریم اللہ قریشی،پہاڑی شاعر حمید کامران،کے نام شامل ھیں جو اس پر تسلسل سے کام کر رھے ھیں پہاڑی زبان پر ھماری جامعات میں پتہ نہیں کوئی کام ھو رھا ھے یا نہیں لیکن ھندوستان کی یونیورسٹیوں میں اس پر کافی کام ھوا ھے کس بھی زبان کے فروغ اور ترویج کے لئے اسکی گرائمر اور ڈکشنری بنیادی شرط ھے پہاڑی محاورے آخان اور اردو کی طرح پہاڑی کی ھر صنف پر ڈاکٹر محمد صغیر خان نے بنیادی، محنت انگیز اور مثالی کام کیا ھے جوخراج تحسین کا مستحق ھے۔ پہاڑی زبان ھو یا اس سے ملتی جلتی دیگر زبانیں، انکا بولنا تو آسان ھے لیکن لکھنا اور پڑھنا خاصا دشوار کام ھے۔ اس کی ایک وجہ موجودہ ترقی بھی ھے جب سے کمپیوٹر اور دیگر جدید ڈیجیٹل دور شروع ھوئی ھے دستی خطاطی کا شعبہ زوال پذیر ھوگیا جو لہجے کے لحاظ سے زیر زبر پیش سے عبارت میں حسن بھی اور ادائیگی بھی درست ھوتی تھی لیکن کمپیوٹر میں یہ سہولت دستیاب نہیں رھتی اس لئے لکھنے میں دشواری پیش آتی ھے پنجابی اور گوجری زبان پر بہت کام ھوا ھے ھمارے ایک ممتاز صحافی اور روزنامہ نوائے وقت کے گروپ ایڈیٹر سعید عاصی نے اس فیلڈ میں نمایاں کام کیا ھے وہ مسلسل اس زبان میں شاعری اور ادب تخلیق کرتے ھیں جو خاصکر پنجاب کے علاقے میں اور بالخصوص شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں میں انکا نام بہت معتبر و معروف مانا جاتا ھے گوجری زبان کو حکومت آزاد کشمیر کے محکمہ تعلیم نے حال ہی اپنے نصاب میں اختیاری مضمون کے طور پر شامل بھی کیا ھے جس کے بعد پہاڑی زبان کے علمبرداروں نے بھی ایک مہم کا آغاز کیا ھے کہ پہاڑی زبان کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جائے یہ گوجری زبان کی مخالفت نہیں ھے بلکہ گوجری زبان کی تائید میں اضافہ کے مترادف ھے۔ اس وقت پہاڑی زبان کے دن کے حوالے سے گزارش کرنا مقصود ھے پہاڑی زبان پاکستان کے شمالی علاقوں، بالخصوص آزاد کشمیر، ہزارہ ڈویژن، اور پنجاب کے بعض پہاڑی علاقوں میں بولی جانے والی ایک قدیم اور میٹھی زبان ہے۔ یہ زبان دراوڑی، فارسی، ہند آریائی اور مقامی زبانوں کے امتزاج کا خوبصورت نمونہ ہے۔ پہاڑی زبان کو مختلف علاقوں میں مختلف لہجوں میں بولا جاتا ہے، جیسے کہ مظفرآبادی، پونچھی، ہزاروی، میرپوری،پوٹھواری، ڈوگری گوجری وغیرہ
ڈوگری زبان بھی پہاڑی لسانی و ثقافتی سلسلے کی ایک اہم شاخ ہے، جو بالخصوص جموں، آزاد کشمیر اور بعض شمالی پاکستانی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ زبان اپنے مخصوص لہجے، شعری ذوق، اور گیتوں کی وجہ سے ممتاز مقام رکھتی ہے۔ ڈوگری ادب، لوک روایات اور موسیقی اس علاقے کی پہچان ہیں۔ گوجری زبان کو زیادہ تر گوجر برادری بولتی ہے، جو پاکستان کے مختلف پہاڑی و میدانی علاقوں میں آباد ہے، خصوصاً آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا، اور پنجاب کے شمالی حصوں میں۔ یہ زبان مال مویشی پر مبنی طرز زندگی، لوک کہانیوں، اور سفر ناموں کی زرخیز روایت رکھتی ہے۔ گوجری زبان کا پہاڑی ثقافت میں ایک مستحکم اور متحرک کردار ہے۔
یہ سب زبانیں صرف رابطے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک مکمل تہذیب، ثقافت، اور تاریخ کی عکاس ہیں۔ ان میں لوک گیت، کہاوتیں، کہانیاں، اور محاورے صدیوں سے نسل در نسل منتقل ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے جدید دور میں ان زبانوں کا استعمال کم ہوتا جا رہا ہے، جو ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ لہٰذا، ان زبانوں کی بقا اور فروغ کے لیے باقاعدہ تعلیمی، ادبی، اور حکومتی سطح پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہمارا قیمتی لسانی ورثہ آئندہ نسلوں تک صحیح صورت میں منتقل ہو سکے۔ پہاڑی زبانوں کے فروغ کے لیے کئی موثر اقدامات کیے جا سکتے ہیں تاکہ یہ زبانیں معدوم ہونے سے بچیں اور ان کا ثقافتی ورثہ محفوظ رہے۔ درج ذیل اقدامات مفید ثابت ہو سکتے ہیں:
1. تعلیم میں شمولیت ابتدائی تعلیم میں پہاڑی زبانوں کو شامل کیا جائے تاکہ بچے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کر سکیں۔
اساتذہ کی تربیت کی جائے تاکہ وہ ان زبانوں میں تعلیم دے سکیں۔ 2. ادب اور میڈیا کا فروغ پہاڑی زبانوں میں کتب، ناول، کہانیاں، شاعری لکھی جائیں اور شائع کی جائیں۔ ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر پہاڑی زبانوں میں پروگرام نشر کیے جائیں۔
3. لغت اور گرامر کی تدوین ہر پہاڑی زبان کی لغت اور گرامر تیار کی جائے تاکہ اسے باقاعدہ تعلیم اور تحقیق میں استعمال کیا جا سکے۔ 4. ثقافتی تقریبات زبان و ثقافت کے میلے، مشاعرے اور لوک موسیقی کے پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ لوگ زبان سے جڑے رہیں۔ 5. ڈیجیٹل تحفظ اور ترقی زبانوں کو ڈیجیٹل صورت میں محفوظ کیا جائے جیسے کہ آڈیو، ویڈیو، اور تحریری ریکارڈز۔
ایپس اور ویب سائٹس کے ذریعے سیکھنے کے وسائل مہیا کیے جائیں۔ 6. حکومتی سرپرستی حکومت پہاڑی زبانوں کو قانونی حیثیت دے اور ان کی ترقی کے لیے بجٹ مختص کرے۔ ادارے قائم کیے جائیں جو زبانوں پر تحقیق کریں اور فروغ دیں۔
7. نوجوان نسل کو متحرک کرنا نوجوانوں کو زبان کے اہمیت سے آگاہ کرنا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو زبان کے فروغ میں استعمال کرنا۔ اگرچہ پہاڑی زبانوں کے فروغ میں ھماری نانیوں دادیوں پھوپھیوں ماسیوں پر ایک پورا مضمون ترتیب دیا جا سکتا ھے لیکن میں اجمالی طور پر مقامی پہاڑی زبانوں کے فروغ میں اپنی خواتین کے کردار کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ھوں۔ پہاڑی زبان کسی بھی قوم کی تہذیب، ثقافت اور شناخت کی بنیاد ہوتی ہے۔ پہاڑی زبان، جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بولی جاتی ہے، ایک دلکش اور قدیم زبان ہے جس میں بے شمار لوک گیت، کہاوتیں، اور ثقافتی روایات پنہاں ہیں۔ بدقسمتی سے، جدیدیت اور دیگر زبانوں کی یلغار کے باعث پہاڑی زبان زوال پذیر ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں خواتین ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں، کیونکہ وہ معاشرے کی پہلی درسگاہ یعنی “گھر” کی بنیاد ہوتی ہیں۔ 1. گھریلو سطح پر زبان کی ترویج عورت ماں کی حیثیت سے بچے کی پہلی معلمہ ہوتی ہے۔ اگر ماں بچے سے پہاڑی زبان میں بات کرے، اسے پہاڑی الفاظ، اشعار، اور کہانیاں سنائے تو بچہ فطری طور پر اس زبان کو سیکھتا ہے۔ یوں نئی نسل میں پہاڑی زبان کی جڑیں مضبوط ہو سکتی ہیں۔ 2. لوک ادب اور روایات کی حفاظت پہاڑی زبان کا لوک ادب زیادہ تر زبانی روایت کی شکل میں ہے۔ خواتین، خاص طور پر بزرگ عورتیں، پرانی کہانیاں، گیت اور ضرب الامثال سناتی آئی ہیں۔ اگر یہ مواد محفوظ کیا جائے — تحریری یا ڈیجیٹل صورت میں تو پہاڑی زبان کا قیمتی اثاثہ ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے۔ 3. تعلیمی اور سماجی سطح پر کردار وہ خواتین جو استاد، سماجی کارکن یا ادیبہ ہیں، وہ تعلیمی اداروں میں پہاڑی زبان کی تعلیم کو فروغ دے سکتی ہیں۔ پہاڑی زبان میں کتابیں لکھ کر یا کلاسز کے ذریعے بچوں میں زبان سے محبت پیدا کی جا سکتی ہے۔ 4. میڈیا اور سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال جدید دور میں خواتین یوٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور دیگر پلیٹ فارمز پر پہاڑی زبان میں ویڈیوز، بلاگز، اور پوڈ کاسٹ بنا سکتی ہیں۔ کھانا پکانے، ہنر سکھانے، یا کہانیاں سنانے جیسے پروگرامز نہ صرف دلچسپ ہوتے ہیں بلکہ زبان کو عوامی سطح پر زندہ رکھتے ہیں۔
5. ثقافتی سرگرمیوں میں شمولیت خواتین اگر ثقافتی میلوں، مشاعروں اور فنکشنز میں پہاڑی زبان کے گیت، ڈرامے اور کہانیاں پیش کریں تو اس سے زبان کو پہچان اور اہمیت ملتی ہے۔ ایسی سرگرمیوں سے عوام میں زبان سے محبت اور اس کے تحفظ کا شعور پیدا ہوتا ہے۔
پہاڑی زبان کے فروغ میں خواتین کا کردار نا قابلِ انکار ہے۔ وہ ماں، معلمہ، لکھاری، اور فنکارہ کے روپ میں اس زبان کی علمبردار بن سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو اس ضمن میں حوصلہ دیا جائے، مواقع فراہم کیے جائیں اور ان کی کاوشوں کو تسلیم کیا جائے تاکہ پہاڑی زبان آنے والی نسلوں تک اپنی خوبصورتی اور ثقافت سمیت منتقل ہو سکے۔ لیکن ایک المیہ یہ ھے ھماری آج کی مائیں بچوں کو انگریزی سکھانے میں تو بہت دلچسپ اور سنجیدہ ھوتی ھیں حالانکہ انگریزی ایک بین الاقوامی رابطے کی زبان ھے ھے یہ بعد میں بچہ بخوبی سیکھ سکتا ھے لیکن مقامی پہاڑی زبان سیکھنے کا عمل بعد میں بہت مشکل ھو جاتا ھے اور اس کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ ھے کہ اگر ھم نے اپنے بچوں کو بالخصوص ان بچوں کو جو پاکستان یا بیرون ملک خاندان آباد ھیں اگر ھم نے انکو پہاڑی زبان میں کم ازکم بولنا نہ سکھایا تو ھماری نسلیں اپنے آبا و اجداد سے بلکہ بچے بچوں سے مکمل کٹ جائیں گے اور ھمارے رشتے کمزور اور بالاخر ختم ھو جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں