دنیا میں کوئی انسان مرد،عورت ایسا نہیں ہوگا۔جو کامیاب نہ ہونا چاہتا ہو۔ یا کامیابی کے لئے تک و دو نہ کرے۔ یا اسکے بچے زمانہ طالبعلمی یا عملی زندگی میں کامیاب نہ ہو۔ کامیابی کے لئے ہر انسان جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ اہداف کا تعین کرتا ہے۔ تعین کردہ اہداف کے حصول کے لئے ہر ممکن محنت اور اقدامات کرتا ہے۔ کامیابی کا گہرائی اور باریک بینی سے غیر جانبدارانہ تجزیہ ثابت کرتا ہے کہ کامیابی کا امیری اور غریبی سے کوئی تعلق نہیں۔کامیابی کا خاندان ،فرقے سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کامیابی کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ اسکے ماں باپ پڑھے لکھے ہیں یا ان پڑھ ہیں۔ اس کے پاس جائیداد ہے یا وہ خالی ہاتھ ہے۔ کامیابی کی بنیاد سوچ ہوتی ہے ۔ قوت فیصلہ ہوتی ہے سوچ دنیا کے کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے کی بنیاد ہوتی ہے۔جسکی سب سے روشن مثال پاکستان خود ہے۔ پاکستان بھی بننے سے پہلے ایک سوچ تھا۔ جب برصغیر کے مسلمانوں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ ہمیں ایک علیحدہ ملک کی ضرورت ہے۔ جس میں ہم اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں۔ اپنے مذہبی عقائد،تعلیم ،روزگار اور کاروبار کے لئے آزاد ہوں۔ سوچ پیدا ہوئی۔ جس نے تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ اس تحریک کو محنتی اور ایماندار قیادت ملی تو دنیا کا نقشہ بدل گیا۔ دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان کے نام سے معرض وجود میں آگیا۔ سوچ کا ایک نقطے پر منظم اور فعال ہونا انقلاب کی دلیل ہے۔ ہم ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس کے آزادانہ وجود کی بنیاد سوچ تھی۔ فطرت کا یہی قانون ہے کہ جب کسی چیز کی فکر کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو اسکا وجود پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ اس امر کی واضح منطق اور دلیل ہے کہ جو کامیابی کی فکر کرے اور اس پر حسب ضرورت عمل کرے تو اسکا وجود پیدا ہو جاتا ہے۔
بقول شاعر
انسان چاہے تو تقدیر بدل سکتا ہے
انسان سوچ تو لے اسکا ارادہ کیا ہے
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں”” اے انسان تو کیا چاہتا ہے،میں دوں گا،تو اسکی کوشش کر” اس فرمان الہی میں کامیابی کا راز پوشیدہ ہے ۔جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود اٹھا رہے ہیں۔ اس آیت کے ترجمے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخاطب کیا ہے مسلمان کو نہیں۔ اللہ کے نظام میں کوئی نا انصافی نہیں۔ کامیابی کا حقیقی فلسفہ اس آیت مبارکہ میں پوشیدہ ہے۔ آیت کے فکر و فلسفے کا باریک بینی اور گہرائی سے مطالعہ ،تجزیہ اور ادراک کیا جائے تو معلوم ہوگا سوچ،ارادہ اور فیصلہ کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔دوسری سیڑھی اللہ تعالیٰ کی گارنٹی ہے۔تیسری سیڑھی کوشش سے مشروط ہے۔ اللہ نے کامیابی کی روح،نفس مضمون کے تصور کی وضاحت کا خلاصہ اور راز انسان پر عیاں کردیا۔
اسی طرح اللہ کے نظام پر غور کیا جائے تو بہت کامیابی کے اسرار و رموز نظر آنے لگتے ہیں۔ اسکے نظام میں پائی جانے والی نشانیاں انسان کو اندورنی طور پر منظم،متحرک اور فعال کرنے کی طرف راغب کرتی ہیں۔جیسے جب سے دنیا بنی ہے سورج روز مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں غروب ہو جاتا ہے۔ سورج کا روز مشرق سے نکلنا اور مغرب میں غروب ہونے میں خاموش پیغام اور کامیابی کے تصور کی وضاحت کا راز پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کے نظام میں مستقل مزاجی ہے۔ جسے انسان اپنی ذات کا حصہ بنا کر کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ دوسرا جب انسان دنیا کے کسی بھی رتبے ،عہدے اور اختیار پر خود کو اللہ کے سامنے جوابدے رکھے گا۔ تو اسے اپنے اہداف کے حصول کے لئے روشنی بھی وہیں سے ملے گی۔
اللہ رب العزت کے نظام میں کامیابی کے راز پوشیدہ ہیں۔ قرآن تخلیق اور علم تحقیق ہے۔ قرآن کی سائنسی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے اللہ کی سب شاہکار تخلیق انسان اور علم ہے۔ یہ بات جاننے کے لئے سائنسی تحقیق سے انسان کے دماغ کی طاقت کا مطالعہ کرنا از حد ضروری ہے۔ جیسے حساب کو تمام مضامین کی ماں کہا جاتا ہے۔ کیونکہ حساب کا دو جمع دو کا فارمولا پوری دنیا کے ہر علاقے میں ایک ہی ہے۔ مختلف ممالک میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن دو جمع دو چار ہی ہوتا ہے۔ جیسے حساب یہ فارمولا کائنات کے ہر ملک ہر علاقے میں ایک ہی ہے۔ اسی طرح اللہ نے انسان کا دماغ بھی ایک ہی فارمولے سے بنایا ہے۔ اللہ نے انسان کے دماغ کے فارمولا بناتے وقت کل کائنات پر یکساں انصاف کیا۔ ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔ ایک گھنٹے میں ساٹھ سیکنڈ ہوتے ہیں۔ اللہ نے ہر انسان کے دماغ کو ایک فارمولے سے بنا کر ایک جیسی طاقت عطاء کی ہے۔ سائنسی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے انسان کے دماغ کی اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اسکے دماغ میں ایک سیکنڈ میں ساٹھ ہزار سوچیں آسکتی ہیں ۔ جدید دنیا کی ترقی کے باوجود آج تک کسی کمپیوٹر میں اتنی طاقت نہیں جس میں ایک سیکنڈ میں ساٹھ ہزار سوچوں کا ڈیٹا آسکے۔ اللہ کی اس انسانی دماغ کی تخلیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی نالائق ہو ہی نہیں سکتا۔ بس فرق سوچ،ارادے اور قوت فیصلہ کا ہوتا ہے۔
دنیا میں علم میں جدت کے ارتقائی عمل پر غور کیا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ انسانی دماغ نے انسانیت کے لئے آسانیاں پیدا کیں۔ جیسے پرانے وقتوں میں تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہ سلامت کے ارد گرد دو افراد کھڑے ہاتھوں سے پنکھا چلا رہے ہوتے تھے جو ہارڈ ورک تھا۔ لیکن آج انسانی دماغ نے ہارڈ ورک کو سمارٹ ورک میں بدل دیا۔ آج ایک بٹن آن کرنے سے پنکھا چلتا ہے اس سے وہاں موجود لوگوں کو ہوا میسر آتی ہے۔ یہ ایک سیکنڈ میں ساٹھ ہزار سوچوں کی دماغ میں سمانے کا کمال ہے کہ لوہے سے بنا ہوا جہاز بیک وقت ہوا اور پانی میں تیرتا ہے اور ڈوبتا گرتا نہیں۔ ڈیجیٹل ،سوشل اور الیکٹرانک میڈیا اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس ( AI) انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ لیکن اخلاقیات کا درس ہر دور میں اللہ اور رسول کے نظام سے ہی ملتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے مثبت رویے پروان چڑھے اسکے ساتھ ساتھ منفی رویے بھی پروان چڑھے۔ مثبت اور منفی رویوں کا انحصار بھی انسان کے دماغ کی طاقت سے ہی ہے ۔
بدقسمتی سے کرپشن ہمارے معاشرے کے وجود میں سرایت کرچکی ہے۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر ہر پاکستانی یہ کہتا پھرتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن نہیں ایمانداری ہے۔ ایک تھانے کا ایچ ایس او ایماندار ہوجائے تو اس علاقے کے پچاس فیصد جرائم ختم ہو جائیں گے۔ ایک تعلیمی ادارے کا پرنسپل ایماندار ہو تو اس ادارے میں طلباء کا مستقبل محفوظ اور کامیاب ہوجائے گا۔ سول و ملٹری آفیسز ،وزیر، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور اراکین سینیٹ ،وزیر اعظم اور صدر ایماندار ہو جائیں تو ملک میں میرٹ اور انصاف کا نظام آجائے گا۔ اپنی اور ملک کی کامیابی کا تعلق بھی اپنی ذات ہے ہوتا ہے۔ ذات کی درستگی سے کامیابی ملتی ہے ۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال فرماتے ہیں
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
پاکستان کی کامیابی ذات کی تبدیلی ہے۔ ہر انسان جو بھی کام کر رہا ہو وہ محنت اور ایمانداری سے کرے۔ تو وہ خود اسکا ملک و معاشرہ کامیاب ہو جائے گا۔ جبکہ بے عمل عالم دین، بے عمل کاروباری،سماجی ،مذہبی، سیاسی اور سول اور ملٹری آفیسرز گویا ہر طبقہ عمل افراد فتنہ ہیں۔ بقول شاعر :
احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ
آنچل بھی اسی تار سے بنتا ہے کفن بھی
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین
