آج پھر یارانِ محفل سجی تھی،سب دیرینہ یار اکھٹے تھے۔ تاجل بھی آیا ہوا تھا ۔ میں حیران تھا کہ آخر کیوں ہر محفل میں بے عزتی اور رسوائی کے باوجود اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔اسی اثنا میں مجھے بزرگوں کی وہ بات یاد آگئی کہ” غیرت مند انسان کو تلخ بات ماردیتی ہے، لیکن بے غیرت کو گولی بھی مارو تو وہ نہیں مرتا بچ جاتا ہے”۔میں اکثر اپنی طبیعت کے موافق لوگوں کی محفل کا حصہ بننا پسند کرتا ہوں۔اور جس محفل میں محبت اور عورت کی سفید پاک چادر پر کیچڑ اچالا جائے وہ محفل مجھے ناگ پھنی کی کانٹوں کی طرح چبھتی ہے، اور اس محفل کے لوگ مجھے انسانیت سے گرے ہوئے، جاہلانہ اور غلیظ خیالات کی گھٹڑی اُٹھائے جنسی مریض نظر آتے ہیں۔ میں آج کی سجی اس محفل میں شرکت نہیں کرنا چاہتا تھا ، بس لاکھ لیت ولعل کے باوجوداسد کے بے حد اصرار پرمحفل کا حصہ بنناپڑا۔ خوش گپیوں کے دوران جیسے ہی ایرانی قہوہ سے پیالیاں بھرنے لگی تو سب کے ہاتھ پلیٹ میں پڑے گُڑ کے ٹکڑوں کی جانب بڑھنے لگے۔سیپ بھرتے ہوئے سب محو گفتگو تھے ،اور انہیں باتوں ہی باتوں میں موضوع محبت نکلا۔لفظ محبت سے اسد کے چہرے پر اداسی سِی چھاگئی اور وہ اس اداسی کو خفیف سے تبسم کا سہارا لیتے ہوئے ایک حد تک چھپانے میں کامیاب ہوگیا ۔اسد کی خزاں رسیدہ محبت لب پہ لب ، پستانوں پر ہاتھ اور پانی گرانے جیسی حسرتوں سے پاک تھی۔اور باقی یہ انسانیت سے گرے ہوئے لوگ تو محبت کی آڑ میں نہ جانے کتنی بار محبوب کا شلوار اتارچکے تھے۔میں کس صف میں تھا یہ تو میری ”ماہی ” ہی بہتر بتاسکتی ہے، مجھے تو اپنی ” ماہی ” کی روح سے محبت تھی اور محبوب کی روح سے محبت کرنے والا بھلا محبوب کے جسم سے کیسے کھیل سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ سب اپنی اپنی ہوس کی آگ بجھانے کے قصے کہانیاں سنانے لگے ۔اور غلیظ امور پر ایک دوسرے کو داد و تحسین سے بھی نواتے گئے۔ انکی محبت جسموں سے تھیں، لہذ ان کی محبت کی کہانیوں میں فارغ ہونے تک کا ذکر تھا ۔کمرے میں قہقہوں کی برسات تھیں، تاجل تن تنہا پانچ محبتوں کا بوجھ اٹھائے فخر اور افتخار محسوس کرتے ہوئے دوسروں کی محبت کی کہانیوں پر ہنستا اور طنز کرتا جارہاتھا۔ مجھ پر بھی تاجل نے طنزیہ جملہ کسا ” محبت کرنی ہے تو’ ‘ رائٹر صاحب ” کی طرح کروں ، پہلی محبت یکطرفہ اور دوسری محبت میں محبوب پانچ ماہ بعد کھوگئی، اور اپنا ” جان ” اُن کے لیے شاعر بن کے اپنی راتوں کی نیند حرام کرگیا ” رستم نے تاجل کو لقمہ دیا” یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس تھوڑا بارہ آنے کا ” ۔محبت سے نابلد سگریٹ کے دھوئوں سمیت طنزیہ قہقہے میری جانب اڑاتے گئے ،اور جولوگ حقیقی محبت سے واقف تھے ،وہ لوگ مجھے فخر یہ انداز سے دیکھنے لگے ۔سچی محبت کرنے والوں پر وہی لوگ ہنستے اور طنز کرتے ہیں جو لوگ محبت کے نہیں بلکہ ” تین انچی سمندر” کے پانی میں اپنا پانی ملانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اور انہی کے ہاتھوں محبت اور عورت کی پاک چادر ہمیشہ سے داغ دار ہوتی آرہی ہے۔ اب تاجل نے اپنی سرگزشت سنانی شروع کردی، اور سب ہمہ تن گوش ہوکر سننے لگے جیسے اس نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو،وہ بولتا ہی چلاگیا اور اس کی باتیں میرا لہوگرماتی گئیں۔
” یارو! شادی کے خواب دکھاکر پانچوں کے پانچوں کو ایسامسلا جیسے سگریٹ بھرنے کے لئے تمباکو اور چرس کو مسلاجاتاہے ۔ ان کے موٹے تازے دودھوبھرے پستانوں سے خوب کھیلا ، اور ناز و ادا سے پلنے والے بدنوں کے ایک ایک حصے کو بوسہ دیا اور چک کاٹے ” سب ہنستے مسکراتے تاجل کو داد دینے لگے ۔ اسی دوران گُوگُو بھی بول پڑا ” بھئی ہم نے توکاکا بن کر اپنی والی کے بڑے بڑے دودھو بھرے پستانوں سے اوپر چڑ ھ چڑھ کر مزے لیے ” گُوگُو نے جو ہاتھوں کی مدد سے پستانوں کا سائز بتایا اس پر سانجو نے جملہ کسا ” اتنے بڑے پستان لگتا ہے دنیا کا سارا دودھ تیری والی کے پستانوں میں تھا ” سب نے قہقہے لگائے ۔” میں نے توناز وادا بہت اٹھائے لیکن ٹانگیں اٹھانے کی بات کرتا تو کمبخت ٹال دیتی تھی ” یارُو نے غلاظت میں لتھڑی ہوئی اپنی بات کہہ دی۔ ” اُس کی نادانی کے کیا کہنے کہ ‘ سمندر’ کے پاس لے جا کر بھی پیاسا لوٹنے کو کہتی ہے” شاکر نے شاید یارُو کے متعفن زخم پر اپنے پلید جملے سے مرہم لگانے کی کوشش کی۔ کمرہ سگریٹ کے دھوئوں سے بھرا جارہا تھا، تاجل سب کی بات کاٹتے ہوئے پھر سے گویا ہوا ” تم لوگ اپنی چھوڑو میری سنو یار!….. صرف اتنا ہی نہیں کئی بار ڈرتے ڈرتے اُن کی خشک فصلوں کو ہلکا پھلکاپانی بھی دے چکاہوں ،لیکن کبھی بھی زیادہ سیراب کرنے کی کوشش نہیں کی کہ کمبخت گلے فٹ نہ ہوجائیں ، بس اسی ڈر کے سبب میں پچھلی سائڈ والی تنگ وتاریک گلی کی سیر ہی کیا کرتا تھا، لیکن اس گلی میں گھسنے کے بعد عجیب طرح کی چیخیں، اور آوازیں سنائی دیتی تھیں”
” ہائے مرشد! ” گُوگُو نے اسے سلیوٹ کرتے ہوئے کہا سب ہنسنے لگے ۔” مُٹھل کے کرتوتوں کی وجہ سے لائف بوائے صابن ہی مارکیٹ سے بھاگ گیا ہے ” گُوگُو نے مٹھل پر جملہ کسا، اور سب مٹھل پر ہنسنے لگے ۔اور ہم مہر و وفا کے متلاشی محبت کو مقدس کتاب کی طرح ماننے والے، ضبط کا دامن تھامے ہوئے ان کی باتوں پر حیران تھے ۔ تاجل پھر سے اپنی بکواس کو آگے بڑھانے لگا ” کبھی کبھار جب تین انچی سمندر کی سیر کو جانے کا شوق چُراتا تو تین انچی سمندر کے کناروں سے اٹھکیلیاں کیا کرتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے پوروں میں آگ لگ گئی ہوں، کچھ ” پھٹ” نہ جائے بس اس ڈر کی وجہ سے جلد ہی اس شوق سے پنڈ چھڑا لیا کرتا ۔پھر ان سے جی بھر گیا ان سے کنارہ کشی اختیار کرکے میں چھٹی کی تلاش میں نکل پڑا ۔اور و ہ سب میرے نیچے سے ہوتے ہوئے نہ جانے کن کن بدنصیبوں کے حصوں میں آگئیں” مُٹھل نے تاجل کے اس کارنامے پر اس کی پیٹھ پر تھپکی دی۔ تاجل کے پھر سے لب ہلے اور اس نے وہ کہہ دیا جو مجھ جیسے لوگوں کے لیے صدمہ سے کم نہ تھا۔” یارو! لیکن اللہ کا شکر ہے کہ آج تک تاجل نے زنا نہیں کیا ” اس کا یہ جملہ میرے تن بدن میں آگ لگا گیا میں ششدر رہ گیا کہ آخر یہ لوگ زنا کہتے کس چیز کو ہیں؟، شاید ان جیسے غلیظ لوگوںکے لیے محبوب کے انگ انگ سے مزے لینا محبت ہے او ر” آگے سے ڈالنا ” ہی فقط ان حرام زادوں کے لیے زنا ہے۔
میں نے سگریٹ سلگایا اور اٹھ کر ہوٹل کی کھڑکی سے ایک لمحے کے لیے بیرونی منظر دیکھنے لگا تاجل کے غلیظ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے ۔میرا خون کھول رہا تھا بے اختیار میرے لبوں سے نکل پڑا ” ہاں تاجل واقعی میں تم نے زنانہیں کیا، فقط گرم گرم کا کھیل کھیلا ہے ، سیل توڑ کر خون خرابہ تھوڑی کیا ہے”یہ سنتے ہی یاروں نے ایسے قہقہے لگائے کہ کمرہ سر پر اٹھا لیا اور تاجل چھلو بھر پانی میں ڈوبنے کی بجائے مسکرارہاتھا ۔ انہی قہقہوں میں اسد کی آواز گونجی ” یار ادیب !کمال کرگیا تو ، بازی لے گیا تو میری جان ”
85