77

[12:41 PM, 4/23/2025] Asgir Hayat: موسمیاتی تبدیلیاں اور ہماری چشمِ تغافل تحریر: انجینئر اصغر حیات بادل گرجتے تھے، برستے تھے، ہم شاعری کیا کرتے تھے۔ اب بادل پھٹتے ہیں، بستیاں بہا لے جاتے ہیں، اور ہم محض ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے ہیں۔ حالیہ ایام میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع رامبن میں جو موسمی غضب نازل ہوا، اس نے فقط کئی انسانی جانیں ہی نہیں نگلیں، بلکہ درجنوں مکانات، دوکانیں، ہوٹل اور گاڑیاں بھی نیچر کی اس انتقامی کارروائی کا ایندھن بن گئیں۔ ہماری طرف یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، جہاں تبدیلی صرف سیاسی جماعتوں کے نعرے میں آتی ہے، اسلام آباد میں ژالہ باری نے ایسا غضب ڈھایا کہ فیصل مسجد کے شیشے تک چکناچور ہو گئے۔ صرف فیصل مسجد ہی نہیں شہر کے کئی سیکٹرز میں گاڑیوں کے شیشے، ونڈ اسکرینز، کھڑکیوں کے شیشے بھی اس ژالہ باری کا نشانہ بنے۔ موٹے موٹے اولے ایسے برسائے گئے جیسے کسی پرانے حساب کا بدل… [11:42 PM, 4/23/2025] Nadeem Gulzar Khokhar: https://hubdarnews1.com/موسمیاتی-تبدیلیاں-اور-ہماری-چشمِ-تغاف/ [11:51 PM, 4/23/2025] Asgir Hayat: Thank you [12:32 PM, 4/28/2025] Asgir Hayat: ینگ انجینئرز نیشنل فورم: امید کی نئی کرن تحریر: انجینئر اصغرحیات

ینگ انجینئرز نیشنل فورم: امید کی نئی کرن
تحریر: انجینئر اصغرحیات
بسا اوقات تاریخ کا پہیہ یوں گھومتا ہے کہ پرانی تمناؤں کو نئے عنوان عطا ہوجاتے ہیں۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے حالیہ فیصلے میں ینگ انجینئرز نیشنل فورم کا قیام بھی کچھ ایسا ہی ایک باب ہے ۔ خوابیدہ امیدوں کی جاگتی تصویر۔
عرصۂ دراز سے نوجوان انجینئرز اپنی محرومیوں، بے روزگاری، عدم نمائندگی اور ترقی کے محدود مواقع پر صدائے احتجاج بلند کرتے آئے ہیں۔ کبھی ڈائیلاگز کی گھن گرج، کبھی کمیٹیوں میں نمائندگی کا جھونکا ۔ مگر نتیجہ اکثر “آیا ہے یونہی بار بار کیا” کے مصداق نکلا۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ
“بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے”
ماضی میں پاکستان انجینئرنگ کونسل میں نوجوان انجینئرز کو نمائندگی کی چمکتی امیدیں دکھائی گئیں۔ ڈائیلاگز اور سیشنز منعقد ہوئے، مگر ان میں اکثر وہی چند چہرے نمائندگی کے دعوے دار بن کر سامنے آتے رہے جو کسی نہ کسی طور پر منظور نظر تھے۔ یوں اصل مسائل، اصل ینگ انجینئرز اور اصل مطالبات کہیں پس منظر میں دب کر رہ گئے۔
اب پہلی بار، پی ای سی کی گورننگ باڈی نے ینگ انجینئرز نیشنل فورم کے قیام کی باقاعدہ منظوری دی ہے۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ نوجوان انجینئرز کو ایک منظم، ادارہ جاتی پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے۔ ایک ایسا پلیٹ فارم جہاں پاکستان بھر کی ینگ انجینئرز ایسوسی ایشنز اور تنظیموں کو نمائندگی دی جائے گی۔ چیئرمین پی ای سی انجینئر وسیم نذیر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں ینگ انجینئرز کے مسائل کے حل کیلئے مضبوط پلیٹ فارم مہیا کرنے کا اعلان کیا ۔ اس کو حقیقت کا رنگ دیتے ہوئے انہوں نے ینگ انجینئرز آفئیرز ٹاسک فورس کی تشکیل کی اور اسے ینگ انجینئرز نیشنل فورم کے قیام کی ذمہ داری سونپی۔ مقصد یہ ہے کہ نوجوان اپنی آواز خود بلند کریں، اپنی سمت کا تعین خود کریں اور اپنے مسائل کے حل کیلئے براہِ راست کردار ادا کریں۔
ینگ انجینئرز نیشنل فورم یوں تو ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے، مگر یہ جھونکا کب تک تازہ رہے گا، یہ عمل اور نیت کی پاکیزگی پر موقوف ہے۔ اب یہ نوجوانوں پر ہے کہ
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی۔
اگر یہ فورم سچ میں نوجوانوں کے خوابوں کی تعبیر بننا چاہتا ہے تو اسے رسمی جلسوں اور تصویری تقریبات سے آگے بڑھ کر، عملی میدان میں اترنا ہوگا۔ تربیت، رہنمائی، مواقع، اور صنعت و جامعات کے درمیان موثر ربط کا ایک حقیقی ذریعہ بننا ہوگا۔
بلاشبہ، نوجوان انجینئرز کے پاس علم کی شمع ہے، جذبے کی آگ ہے اور وقت کی دھڑکن کو سمجھنے کی بصیرت بھی۔ اگر صحیح سمت دی جائے تو یہی نوجوان “وہ قطرہ ہے جو گہر بنے، وہ شرر ہے جو شرار بنے”۔ ان کے پاس وہ طاقت اور صلاحیت ہے کہ وہ معاشرتی ترقی کی مشعل بن سکتے ہیں اور ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پہلا کٹھن امتحان ینگ انجینئرز نیشنل فورم کی تشکیل کا ہے، ینگ انجینئرز فورم کی پہلی باڈی کا انتخاب کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔دوسرا مشکل مرحلہ اس منتخب باڈی کا ہوگا، جو نہ صرف میرٹ پر پورا اترے، بلکہ نوجوان قوم کا بوجھ اٹھانے کی ہمت اور صلاحیت رکھے اور ایک ایسی پختہ بنیاد فراہم کرے جس پر انجینئرز کا مستقبل استوار ہو۔ یہ عمل ثابت کرے گا کہ نوجوان انجینئرز بھی اگر موقع دیا جائے تو دنیا بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
ینگ انجینئرز نیشنل فورم کے امکانات بے حد روشن ہیں۔ اگر یہ فورم اپنی راہ پر خلوص، شفافیت اور میرٹ کے اصولوں پر چلے، تو بے روزگار انجینئرز کے لیے روزگار کے نئے در کھل سکتے ہیں۔ انڈسٹری اور اکیڈیمیا کے درمیان ایک مضبوط پل تعمیر ہو سکتا ہے، جو کہ دونوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔ نوجوانوں کو تحقیق و ترقی کے منصوبوں میں شامل کیا جا سکتا ہے، اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو عملی طور پر آزمایا جا سکتا ہے۔
اگر یہ فورم اپنے راستے کو محض سیمینارز اور تقاریب تک محدود نہ رکھے، تو سکلز ڈویلپمنٹ پروگرامز کو عملی طور پر شروع کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اسٹارٹ اپس اور انوویشن کی دنیا میں نوجوان انجینئرز کی راہیں ہموار کی جا سکتی ہیں، اور انہیں صنعت کی جدید ترین رحجانات کے مطابق نصاب اور تربیتی معیار متعین کرنے میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
اگر یہ فورم صحیح راستے پر قائم رہے، تو یہ ایک نیا دور شروع کر سکتا ہے، جہاں ینگ انجینئرز اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کام کر سکیں گے۔
لیکن اگر یہ فورم بھی ماضی کی روایتوں پر چل نکلا، سفارشی نمائندوں کی چراگاہ بن گیا، یا رسمی تقریبات اور چمکتی کانفرنسوں کی حد تک محدود رہا تو پھر یہ اقدام بھی
کہاں کی دوستی ہے، کہاں کا وفا کا وعدہ
سبھی بتوں نے ہنس ہنس کے توڑ دیے ہیں پیمان
کا منظر نامہ پیش کرے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فورم میں حقیقی ینگ انجینئرز کو آگے لایا جائے، جو فیلڈ میں پسینے سے اپنے خوابوں کو سینچ رہے ہیں۔ فیصلے میرٹ پر ہوں، پالیسی سازی میں نوجوانوں کی اجتماعی آواز سنی جائے، اور محض نمائشی سرگرمیوں کے بجائے حقیقی سکلز ڈویلپمنٹ، لیڈرشپ ٹریننگ، اور روزگار کے عملی مواقع فراہم کیے جائیں۔
آخر میں یہی کہنا مناسب ہوگا، ینگ انجینئرز نیشنل فورم ایک شمع ہے؛ اب یہ شعلہ بنے یا ایک جھلملاتی کرن میں ہی بجھ جائے، اس کا دارومدار اس فورم کے چلانے والوں کی نیت، حکمت عملی، اور دیانت پر ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں