اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا صدر قانون کے مطابق اسلام آباد فوڈ اتھارٹی بورڈ کا ممبر ہوتا ہے جبکہ ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن اور فوڈ میکنگ انڈسٹری سے ایک ایک ممبر لیا جانا تھا ۔ اس کے علاوہ مختلف محکموں سے تین افسران جن کا گریڈ 19 ہو بورڈ کے ممبران ہونا تھے۔
اس وقت ایک ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ اتھارٹی اسلام آباد کو چلاتی ھیں اور اتنی منہ زور افسر ہے کہ آئی سی سی آئی کے صدر کو عہدہ سنبھالے ہوئے چھ ماہ ہو چکے ہیں اور ابھی تک نوٹیفیکشن جاری نہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ تین سال کے دوران صرف بورڈ کی صرف ایک میٹنگ ہوئی ۔ فوڈ کی کوالٹی چیک کرنا اتھارٹی کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن موصوفہ نے از خود رولز بنائے ہیں اور خود ہی جرمانوں کی رقم کا تعین کر لیا ہے چونکہ اسلام آباد فوڈ اتھارٹی ایکٹ آف پارلیمنٹ سے تشکیل پائی تھی اس لئے بنائے گئے رولز اور دیگر فنکشن کی کیبنٹ سے منظوری ضروری تھی ۔ جو کہ ابھی تک نہ لی گئی ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ تین سال کے دوران جرمانوں اور لائسنس کی مد میں کروڑوں روپے اکٹھے کئے گئے ہیں۔ فنڈز بورڈ کی منظوری کے بغیر خرچ نہیں کی جا سکتے ۔ ٹریڈ لائنس کی مد میں جمع شدہ رقوم سرکاری اکاونٹ میں جاتی ہے جبکہ جرمانوں کی رقوم کا کوئی والی وارث نہیں ۔ جمع شدہ رقم سے بونس یا کمیشن ادا کرنا غیر قانونی ہے ۔ سابق چیف کمشنر آئی سی ٹی مینگل کے دور میں ایک میٹنگ ہوئی۔ اس کے علاوہ کوئی میٹنگ نہ ہوئی اس لئے تمام تر عمل نہ صرف غیر قانونی ہے کہ قابل گرفت قانون بھی ہے
اسلام آباد فوڈ اتھارٹی کے کسی اہلکار کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے مجسٹریٹ کے اختیار نہیں دیئے ہیں لیکن گریڈ گیارہ اور گریڈ چودہ کے انسپکٹر فوڈ مجسٹریٹ کے اختیارات استعمال کر کے دکانیں سیل کر دیتے ہیں ۔ ڈپٹی کمشنر آئی سی ٹی محترم عرفان نواز میمن نے گذشتہ دنوں ہدایات جاری کیں کہ ٹریڈ لائسنس بنانے میں کوئی اوور لینگ نہیں ہونی چاہیے ۔ ابھی تک اسلام آباد فوڈ اتھارٹی کی لائیسنس فیس اور جرمانوں کی رقم کا کوئی گزٹ نوٹیفیکشن ہی جاری نہیں ہوا ۔ گذشتہ دنوں فوڈ اتھارٹی کی ٹیم نے ایف سکس مارکیٹ کا بھر پور دورہ کیا اور افطاری کے رش کے دوران دکانداروں کو ہراساں کیا ۔ ان کو تمام دکانداروں نے ڈی ایم اے کے لائیسنس دکھائے اور بتایا کہ 30 جون تک کاروبار آمد ہیں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کے حکم کے مطابق اگر ضروری ہوا تو اس پر 30 جون کے بعد عمل کریں گے ۔ لیکن خاتون فوڈ آفیسر کا جواب تھا کہ ڈی سی صاحب کا حکم کوئی نہیں ہے ۔ انہوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری مارکیٹ کے دکانداروں کو نہ صرف لائیسنس کے نوٹس جاری کئے بلکہ بھاری جرمانے بھی کر دیئے ۔ اتنے جرمانے کرنے کا ان کے پاس کوئی جواز اور اختیار ہی نہ تھا ۔ چیف کمشنر آئی سی ٹی چوہدری محمد علی رندھاوا کو اس واقعہ کی تحریری شکایت کر دی گئی ہے ۔ فوڈ اتھارٹی نے تین سال گزرنے کے باوجود ابھی تک جدید لیبارٹری قائم نہ کی ہے دودھ ٹیسٹنگ مشین ایک ڈرائیور چلاتا ہے. سرکاری رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں منرل واٹر سپلائی کرنے والی کمپنیوں اور فلٹریشن پلاٹس کے پانی کے نمونے فیل ہو گئے ہیں۔ پیور اور صاف پانی کی چیکنگ کیا فوڈ اتھارٹی کی ذمہ داری نہیں۔ پینے والے پانی میں سوریج کا پانی مکس ہوتا ہے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا ۔ کیا ان کی ذمہ داری بھاری جرمانے اور لائیسنس میں وصول کرنا ہے ، کیا سی ڈی اے کے کسی فلٹریشن پلانٹ اور منرل واٹر کمپنی کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا ؟
17