سی ڈی اے ۔ ایم سی آئی اور آئی سی ٹی تین اسلام آباد کے الگ الگ محکمے ہیں وفاقی دارالحکومت کو چلانے کے لئے سب کی الگ الگ ذمہ داریاں ہیں ۔ ایم سی آئی کے الیکشن چار سال سے نہ ہوئے ۔ ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن کیانی پراپرٹی ٹیکس میں اضافہ کے خلاف رٹ پٹیشن میں فیصلہ دے چکے ہیں کہ ایم سی آئی آئی اور سی ڈی اے دو الگ الگ محکمے ہیں اور جب تک ایم سی آئی کے الیکشن نہیں ہوتے سی ڈی اے اس کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتا اور نہ ہی فنڈز استعمال کر سکتا ہے اور روزمرہ کے معاملات چلانے کے لئے ہائی کورٹ سے فنڈز ریلیز کرانے کے لئے ہر ماہ درخواست دینی پڑے گی ۔ ایم سی آئی کے الیکشن تک کوئی بھی اتھارٹی کوئی لوکل ٹیکس نہ لگا سکتی ہے اور نہ ہی اس میں اضافہ کر سکتی ہے – سی ڈی اے کے اپنے سولہ ہزار سے زائد ملازمین اور افسران ہیں ۔ لیکن ایم سی آئی اور سی ڈی اے چلانے کے لئے ایک سو سے زائد افسران ڈیپوٹیشن پر دیگر صوبوں اور خصوصاً پنجاب سے لائے گئے ہیں ۔ چونکہ دوسرے شہروں سے لائے گئے افسران ایک گریڈ اپ ہوتے ہیں اس لئے سینئر ہونے کے باوجود سی ڈی اے کے افسران اپنے سے جونیئر افسران کے ماتحت کام کرتے ہیں جس سے مسائل بڑھ جاتے ہیں- دوسرے شہروں سے لائے گئے افسران تمام مقامی مسائل سے نابلد ہوتے ہیں اور نہ ہی مقامی آبادی اور رہائیشیوں سے ان کا کوئی رابطہ ہوتا ہے ، ان کا مقصد چھ ماہ بعد پلاٹ کی صورت میں پرافٹ حاصل کرنا ہوتا ہے آج کل ڈی ایم اے کا محکمہ بھی عملاً غیر فعال ہو چکا ہے …
سی ڈی اے نے گذشتہ دنوں جناح سپر مارکیٹ میں پارکنگ فیسں نافذ کی جو کہ ایم سی آئی کا کام تھا لیکن پارکنگ فیس والا پراجیکٹ مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے ۔ بلیو ایریا میں پارکنگ پلازہ تعمیر کیا گیا اور زیادہ تر پلازہ کو دکانیں بنا کر بیچ دیا گیا۔ پارکنگ پلازہ بھی نا کام ہو سکتا ہے اس لئے سی ڈی اے نے اسلام آباد کی دو اہم ترین مارکیٹوں بلیو ایریا اور جناح سپر مارکیٹ کو کار فری بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے دونوں مارکیٹوں کی ٹریڈرز یونینز کو کسی نے اعتماد میں نہ لیا ہے اور مارشل لاء کی طرز پر فیصلے کئے گئے ہیں۔ بلیور ایریا میں دکانیں کم اور دفاتر زیادہ ہیں ۔ کار فری سٹسم میں دفاتر متاثر ہوں گے۔ معلوم نہیں وہ ایسے فیصلے کر کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کسی کے کہنے پر کر رہے ہیں۔ ایسے فیصلوں سے مسائل حل ہونے کی بجائے ان میں اضافہ ہو گا۔ ۔ ایم سی آئی کے محکمہ ڈی ایم اے کے نوٹیفیکیشن کے مطابق وہ آئی سی ٹی میں بورڈ ٹیکس اور ٹریڈ لائسنس کی حصول کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل یونین کونسلز کو کسی قسم کا ٹریڈ لائسینس بنانے سے روک دیا گیا تھا اور نیلامی منسوخ کر دی گئی تھی۔ اسی طرح 1968 کے آرڈیننس کے تحت فوڈ کا کاروبار کرنے والوں سے لائسنس جاری کرنا بھی ڈی ایم اے کے اختیار میں تھا ۔ لیکن یکایک فوڈ اتھارٹی بن گئی جس کے بورڈ کی کوئی میٹنگ نہ ہوئی ۔ رولز نہ بنائے گئے اور ڈپٹی ڈائریکٹر نے از خود جرمانوں کی رقم اور لائیسنس فیسں کا تعین کر دیا جو کہ غیر قانونی ہے۔ ایک کاروبار کو ایک وقت میں ایک اتھارٹی کا لائسنس حاصل کرنا ہوتا ہے ہمک یونین کونسل غیر فعال ہے لیکن ٹریڈ لائسنس کے نام پر نامعلوم افراد نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یونین کونسلز کا عملہ اپنی جگہ کرپشن میں ملوث ہیں ہے۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ امید کرتے ہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ سید محسن نقوی اور چیف کمشنر و چیئرمین سی ڈی اے چوہدری محمد علی رندھاوا نوٹس لیں گے۔
