کہتے ہیں سیاست عبادت ہے‘ عوام کی خدمت سیاست کی معراج ہے‘ ہر کوئی جو سیاستدان ہے اسے عوامی خدمت کا جذبہ بے چین رکھتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے لئے محض اس بنا پر دن رات کوشاں رہتے ہیں کہ عوام کو راحتیں دے سکیں ہر طرف انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے اونچے بڑے ایوان انصاف بنائے جاتے ہیں عوام کی دہلیز پر انصاف مہیا کرنے کے دعوے کو عملی جامہ پہنچانے کیلئے انتظامی ریفارمز پولیس ریفارمز‘ خدمت میں عظمت کی گونج ہر سو سنائی دیتی ہے ۔ ابھی دو روز پہلے 4اپریل تھی پاکستان کے ایک عظیم سیاسی رہنما جناب ذوالفقار علی بھٹو کی برسی تھی ان کے نام پر ایک طویل عرصے سے سیاست کرنے والے رہنمائوں کو ٹی وی‘ اخبارات میں بہت تلاش کیا گڑھی خدا بخش میں ان کے ورثاء کو دیکھنے کی بار بار کوشش ناکام ہی رہی۔ وفاقی دارالحکومت میں ان دنوں بھٹو کے نام پر سیاست کرنے والوں کا ڈیرہ ہے مگر کسی نے اسے یاد نہیں کیا۔ پیپلز سیکرٹریٹ میں بھی چند ورکرز نے فاتحہ خوانی کی اور آج بھی بھٹو زندہ ہے کی ریکارڈنگ چلا کر یوں یہ دعائیہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ سیاست کے سینے میں اگر دل ہوتا تو 4اپریل کا دن بھٹو کا دن ہوتا۔ بھٹو کی یاد کو دیگر سب مصروفیات پر فوقیت ملتی مگر اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ اور یوں اگر بھٹو آج بھی زندہ ہے تو کیا ضرورت ہے۔ فاتحہ خوانی کی قرآن خوانی کی اور دعائیہ تقریبات برپا کرنے کی۔
دوسری جانب ہمارے محبوب رہنما بھی تو بھٹو ری وزیٹڈ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ہمارے ہاں یہ خط لہرانے کی رسم نہ جانے کب ختم ہوگی۔ بھٹو نے بھی خط لہرائے۔ ضیاء نے بھی رنگ میں سائیکل چلا کر خط لہرائے اور اب عمران نے بھی ایسا ہی کیا لیکن یہ بھی عجب تماشا ہے کہ بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار سے دوا لینے کی عادت بھی ترک نہ کرسکے۔ ہر صاحب ثروت اور صاحب اقتدار امریکہ میں ریٹائرمنٹ کے دن گزارنا چاہتا ہے کیونکہ سوشل سیکورٹی‘ لا اینڈ آرڈر اور صحت کی سہولیات وہاں سٹیٹ آف دی آرٹ ہیں۔ ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری دوستی تو ہم چائنا سے چاہتے ہیں مگر چائنا جا کر سیٹل ہونے کا کبھی کسی نے نہیں سوچا اور نہ ہی بڑے لوگوں کی اولادیں وہاں پڑھائی کیلئے جانا چاہتی ہیں۔ کیونکہ امریکہ میں پڑھائی کے بعد انٹرنیشنل اداروں میں اور تھرڈ ورلڈ کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے تھنک ٹینکس میں اہم تعیناتیاں بھی ہاورڈ اور دیگر امریکی جامعات کے فارغ التحصیل ہونہار کو میسر ہوتی ہیں اور پھر یہی معززین کے معزز ترین سپوت صاحبان اقتدار کے اتالیق اور ایڈوائزر ہوتے ہیں۔ عوام اور ووٹرز کو تو شاید نہ یہ پتہ ہے کہ یہ لیٹر کیا ہے اس کی اہمیت اور حیثیت کیا ہے لیکن لیٹر لہرانے والے قوم کو خودداری اور عظمت کا درس دیتے ہیں تو یہ لوگ اپنے آپ کو آزاد خودمختار اور بااختیار سمجھنے لگتے ہیں۔
ہرجانے والے کی برائی کرنا ہر آنے والی حکومت اپنا فرض اولین سمجھتی ہے۔ ہر آنے والی حکومت کو خزانہ خالی ملتا ہے اور سب خرابیاں جانیوالوں میں گنوائی جاتی ہیں ہر کوئی جو اقتدار میں آتا ہے عوام کو راحتیں دینے کے وعدے تو کرتا ہے مگر سب سے زیادہ مشکلیں دے کر چلا جاتا ہے۔ نہ پولیس بدلی نہ لوگ بدلے‘ حالات بدلتے ہیں تو اقتدار کا حصہ رہنے والے لوگوں کے بدل جاتے ہیں۔ عوام کو اقتدار منتقل کرنے کیلئے بلدیاتی نظام کی باتیں تو ہوتی ہیں الیکشن بھی ہوتے ہیں مگر عوام کے حالات تو نہیں بدلتے البتہ بلدیاتی نمائندوں کے اپنے حالات خوشگوار ہوجاتے ہیں۔ یوں ایک عرصے سے یہی کھیل جاری ہے جمہوریت کا نعرہ لگانے والے جمہور کو تو اندازہ ہی نہیں کہ وہ تو اس کھیل میں محض ایندھن ہیں جسے محض استعمال ہونا ہوتا ہے۔ آئوٹ پٹ میں نہ اس کا کوئی حصہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی کلیم۔ اس گنتی کے کھیل میں انہیں کچھ نہیں ملنے والا سوائے پناہ گاہوں کے اور احساس پروگرام کے تحت ملنے والی امداد کے۔
جوں جوں وطن عزیز کی آبادی بڑھ رہی ہے نئے مافیاز نئے ٹرینڈز کے ساتھ فروغ پارہے ہیں اور پھر کچھ مافیاز تو مافیاز کے خلاف ایکشن لینے کے لئے آگے آگے ہوتے ہیں کیونکہ مافیاز کے مافیاز ہی حکومتوں کا دست و بازو ہوتے ہیں۔
بھٹو صاحب کو بھی اب احساس تو ہوگیا ہوگا کہ آج بھی بھٹو زندہ ہے مگر جب جب ضرورت ہو تو بھٹو زندہ ہوتا ہے جب دیگر مصروفیات ہوں تو ان کے اپنے ورثاء یہ ذمہ داری پرولتاری ورکرز کو ہی دے دیتے ہیں۔ یوں بھی پرولتاری اکثریت تو نعروں پر مطمئن رہتی ہے۔ یوں بھی اب سوشل میڈیا نے کئی طرح کے ایپس متعارف کرادی ہیں جو ہر طبقہ فکر اور ہر عمر کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق سیاسی تعلیمی‘ مذہبی کلپس بکثرت فراہم کرتے رہتے ہیں اور بڑے غیر محسوس انداز میں یہی ایپس ہر شعبہ زندگی میں ٹرینڈ سیٹ کرتی ہیں۔
ابھی آنے والے دنوں میں پھر وہی گیم ہوگی ادھر آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف مزید ٹائٹ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔ سیاسی فیصلے عدالتوں میں ہونگے حکومت اور اپوزیشن ہڑتالیں کروائیں گی مارکیٹ پھر اوپر جائے گی ایک اور مافیا وجود میں آئیگا اور نہ جانے کب تک یہ خط بھی لہرائے جاتے رہیں گے اور کب تک یہ ہڑتالیں اور ہنگامے ہوتے رہیں گے۔ سیاسی رہنمائوں کو بھی پتہ ہے ایندھن وافر دستیاب ہے کسی کو کوئی اعتراض نہیں اور یوں یہ سلسلہ ایسے ہی چلے گا۔
80