34

جنگ عظیم سوئم: تباہی کا وہ دہانہ جس سے بچنا لازم ہے۔ تحریر سردار محمد حفیظ رھاڑوی

دورِ حاضر میں اگر عالمی جنگ کا شعلہ بھڑکا، تو اس کی تباہ کاری دوسری جنگ عظیم کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہولناک اور ناقابل تصور ہوگی۔ یہ دعویٰ محض جذباتی اندازے پر مبنی نہیں بلکہ سائنسی، عسکری، اور معاشی دلائل کی روشنی میں ایک تلخ حقیقت ہے۔
دنیا نے دوسری جنگ عظیم (1939-1945) میں تقریباً سات کروڑ جانوں کا نقصان دیکھا، ایٹمی ہتھیاروں کا اولین استعمال ہوا، اور پورا یورپ کھنڈر بن کر رہ گیا۔ مگر آج کی دنیا اُس دور سے یکسر مختلف اور کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، جوہری و حیاتیاتی ہتھیاروں کا ذخیرہ، مصنوعی ذہانت پر مبنی جنگی نظام، اور عالمی طاقتوں کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی یہ عندیہ دیتی ہے کہ تیسری عالمی جنگ کی صورت میں پوری انسانیت کو فنا کے دہانے پر لا کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی: تباہی کی رفتار میں کئی گنا اضافہ
اگر دوسری جنگ عظیم میں تباہی کے لیے مہینے درکار تھے، تو اب چند گھنٹوں میں پورے شہر صفحۂ ہستی سے مٹائے جا سکتے ہیں۔ امریکہ، روس، چین، بھارت، فرانس، اور دیگر ایٹمی طاقتیں ایسی میزائل ٹیکنالوجی رکھتی ہیں جو چند منٹوں میں براعظم پار حملہ کر سکتی ہے۔ ڈرونز، سائبر ہتھیار، اور مصنوعی ذہانت پر مبنی روبوٹس ایسی جنگ کو جنم دے سکتے ہیں جہاں انسانی فیصلہ سازی پسِ پشت جا سکتی ہے، اور نتیجہ ایک “غیر ارادی ہولوکاسٹ” بن سکتا ہے۔
معاشی اور ماحولیاتی تباہی : اثرات نسلوں تک پھیلیں گے۔ ایٹمی جنگ صرف جانی نقصان تک محدود نہیں ہوگی بلکہ زمین کا ماحولیاتی توازن درہم برہم ہو جائے گا۔ سائنسدانوں کے مطابق چند بڑے شہروں پر ایٹمی حملے کے بعد دنیا بھر کا درجہ حرارت شدید گراوٹ کا شکار ہوگا، جس سے “نیوکلیئر ونٹر” کی صورت میں عالمی قحط جنم لے سکتا ہے۔ زراعت، پانی، توانائی اور طب جیسے شعبے مکمل مفلوج ہو جائیں گے۔ آج کا مربوط عالمی نظام اس دھچکے کو سہنے کی سکت نہیں رکھتا۔ عالمی سیاست : سفارتکاری کی ناکامی یا فریب؟
عالمی ادارے جیسے اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور نوبل پیس انعامات کی چمک دمک، دنیا کو پُرامن رکھنے میں عملی طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ یوکرین جنگ، فلسطین و اسرائیل کی کشیدگی، ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ، اور چین تائیوان تنازعہ جیسے امور دراصل اُس لاوے کی علامتیں ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ دنیا کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ کیا طاقت کے توازن کو جنگ کے ذریعے قائم رکھا جا سکتا ہے؟ یا یہ صرف تباہی کا ایک فریب ہے؟
پاکستان کا کردار اور قوم کی بیداری پاکستان جیسی ایٹمی طاقت اور جغرافیائی لحاظ سے حساس ریاست کے لیے یہ صورتحال نہایت اہم ہے۔ ہمیں نہ صرف بین الاقوامی سطح پر پرامن سفارتکاری کو فروغ دینا ہوگا بلکہ قوم کو اس بات کا شعور بھی دینا ہوگا کہ جنگیں صرف میدان میں نہیں لڑی جاتیں، بلکہ ان کے اثرات نسلوں کی بربادی بن کر ظاہر ہوتے ہیں۔ میڈیا، جامعات، اور علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ امن کے بیانیے کو فروغ دیں تاکہ ہم آنے والی تباہی کو قبل از وقت روک سکیں۔ قارئین کرام ۔ آپ نے ایک ھفتہ قبل آپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پاک بھارت کی صرف چار روزہ جنگ نے دونوں ممالک میں کتنی تبائی کر دی۔
پاک بھارت جھڑپوں نے ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مسائل کو کئی گنا پچیدہ اور گھمبیر کرنے کی پیش خیمہ ثابت ھوتی ھے۔ چند دنوں کی اس جنگ نے کئی قیمتی جانیں نگل لیں، سینکڑوں خاندان اجاڑ دیے، اور اربوں ڈالرز کی معیشت کو خاکستر کر دیا۔ پھر بھی اگر کوئی جنگ کو فخر، غیرت یا ہیرو ازم کا نام دے رہا ہے تو وہ یا تو حقیقت سے نابلد ہے، یا جذبات کے دھوکے میں ہے۔ پاکستان کبھی بھی جنگ کا حامی نہیں رھا۔ اور نہ ھی کسی مسئلے کا حل جنگ قرار دیتا ہے ۔ اور ھاں اگر اس پر مسلط کی جائے تو دشمن پر قہر خداوندی بن کر کر ٹوٹ پڑتا ھے۔
جنگ میدان میں نہیں، ہسپتالوں، قبرستانوں اور خستہ حال گھروں میں لڑی جاتی ہے۔ ان گنت فوجی جوان اپنے گھر والوں کو الوداع کہے بغیر خاک میں مل جاتے ہیں۔ معصوم بچے یتیم ہو جاتے ہیں، عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں، اور بزرگ اپنے بڑھاپے کا سہارا کھو بیٹھتے ہیں۔ جنگ کی چنگھاڑ میں صرف بندوقیں نہیں گونجتیں، بلکہ کروڑوں دلوں کی چیخیں دب جاتی ہیں۔
بھارت کے وہ حلقے جو جنگ بندی پر ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں، اُنہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جنگ نہ تو سرحدی فخر ہے، نہ سیاسی جیت، بلکہ اجتماعی شکست ہے۔ یہ وہ دلدل ہے جس میں اترنا آسان، نکلنا ناممکن ہوتا ہے۔ کیا ہمیں عراق، شام، افغانستان یا یوکرین کی مثالیں یاد نہیں؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا خطہ بھی ہمیشہ کے لیے راکھ کا ڈھیر بن جائے؟
امن کی راہ مشکلات سے بھری ضرور ہے، مگر اس کا نتیجہ پائیدار ہوتا ہے۔ اصل بہادری توپ چلانے میں نہیں، دل و دماغ کو تھامنے میں ہے۔ امن مذاکرات، دوطرفہ روابط اور سمجھوتے ہی وہ راستے ہیں جو عوام کو روٹی، کپڑا، تعلیم اور صحت دے سکتے ہیں۔ جنگ صرف بارود دیتی ہے، اور بارود کی فصل کبھی پھل نہیں دیتی، صرف لاشیں اگاتی ہے۔
وقت آ چکا ہے کہ بھارت اور پاکستان اپنے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے جنگ نہیں، امن کو ترجیح دیں۔ ان کے درمیان اصل جنگ غربت، جہالت اور انتہا پسندی کے خلاف ہونی چاہیے، نہ کہ ایک دوسرے کے خلاف۔ یاد رکھو! جنگ نہیں، امن ہی انسانیت کا مستقبل ہے
دنیا آج ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے جہاں ایک غلط فیصلہ پوری تہذیب کو مٹا سکتا ہے۔ جو قومیں اس غلط فہمی میں ہیں کہ جنگ کے ذریعے عزت یا سلامتی حاصل ہو سکتی ہے، انہیں تاریخ کا دامن تھام کر دیکھنا ہوگا۔ ایٹمی جنگ جیتنے والا کوئی نہیں ہوگا، بلکہ بچنے والا بھی شاید کوئی نہ رہے۔ انسانیت کی بقا، صرف اور صرف، امن، برداشت، اور بین الاقوامی تعاون میں میں پنہان ھے۔ رب العالمین ھمیں اور نوع آدم کو جنگ کی اذیناک تابکاریوں سے محفوظ فرمائے اور ھندوستان میں بھی اس طبقے کو ھدایت عطا فرمائے جو جنگ میں ھیرو بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اللہ ذوالجلال ھم سب کا حامی و ناصر ہو ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں