51

امن کی خواہش کمزوری نہیں تحریر:وقار اسلم

آر ایس ایس کی حکومت نے جو کشیدگی پیدا کی ہے، وہ ناقابلِ فہم اور غیر منطقی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ بھی معطل کیا گیا، لیکن اس سے بھارت کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ اب بھارت کی کیا پوزیشن ہے؟ کیا وہ ایک بڑی جنگ شروع کرے گا؟ نہیں، وہ جنگ نہیں کر سکتا۔ کیا وہ محدود اور ٹارگٹڈ حملہ کرے گا؟ ہاں، کر سکتا ہے، لیکن اس کا جواب اتنی طاقت سے دیا جائے گا کہ بھارت کے لیے یہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔ دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کی تیاری پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اور یہی وہ لمحہ ہے جب بھارت پریشان ہو جاتا ہے۔ بھارت کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ حملہ کرتا ہے تو اس کا جواب فوری اور سخت ہوگا، لیکن حقیقت میں ہمیں بھارت کی موجودہ حالت پر بھی غور کرنا چاہیے۔ بھارت جس آر ایس ایس کے زیر اثر ہے، اس کے لیے حالات ایسے ہیں کہ وہ بحران سے نکلنے کے قابل نہیں ہے۔ چند ماہ میں بھارت نے تین بڑے سانحات کا سامنا کیا ہے اور ان کی شدت سے وہ بے حال ہو چکا ہے۔ ان سانحات کا اثر اتنا گہرا ہے کہ بھارت کی داخلی سیاست اور خارجہ پالیسی دونوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔
پہلا سانحہ بنگلہ دیش کا تھا، جہاں بھارتی نواز حکومت کی تبدیلی نے بھارت پر بڑا دباؤ ڈالا۔ حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ اور بھارت کی حمایت کے آثار کا خاتمہ ایک ایسا دھچکہ تھا کہ آر ایس ایس اس پر تڑپ اُٹھا۔ پھر بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی دوستی نے بھارت کی بوکھلاہٹ میں مزید اضافہ کیا۔ بھارتی میڈیا نے اس صورتحال کو اس طرح پیش کیا کہ جیسے بنگلہ دیش دوبارہ مشرقی پاکستان بن گیا ہو، حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ دوسرا دھچکہ انہیں پاکستانی معیشت کی بحالی سے لگا۔ بھارت یہ سمجھتا تھا کہ پاکستان کی معیشت برباد ہو چکی ہے، اور ایسا ہی ہوگا کہ پاکستان کا معاشی مستقبل تاریک ہوگا۔ لیکن جب عالمی اداروں نے پاکستان کی معیشت کی بحالی کی تصدیق کی اور معیشت مستحکم ہوگئی، تو بھارت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا۔ اس کے علاوہ، بھارت کو افغان طالبان کے مغربی سرحد پر حملے کی توقع تھی، مگر اس کے بجائے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی ہوئی، اور افغان سرحد پر صلح ہوگئی۔ یہ بھارت کے لیے مزید ایک دھچکہ تھا، کیونکہ وہ پاکستان کو کمزور سمجھ رہا تھا۔
اب، بھارت ان تمام مشکلات سے جوجھ رہا ہے، لیکن ایک بات صاف ہے: نریندر مودی، جو خود کو بہت طاقتور سمجھتے ہیں، ان کی سیاست اور فوجی حکمت عملی میں جو خامیاں ہیں، وہ چھپ نہیں سکتی۔ ان کو جو صدمات جھیلنے پڑے ہیں، ان کے اثرات ان پر ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ آخرکار، آر ایس ایس اور مودی کے لیے بھی یہ وقت کسی امتحان سے کم نہیں۔ جیسے ہی بھارت میں انتخابات قریب آتے ہیں، پاکستان ایک بار پھر بھارت کے میڈیا کے اسٹیج پر ولن بن کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا سچ کو اتنا آسانی سے مٹا دینا ممکن ہے؟
اجیت کمار ڈوول کو ہی لے لیجیے۔ ایک ایسا شخص جس نے ریاستی دہشتگردی کو “Offensive Defense” کا لبادہ اوڑھا کر اپنے مکروہ عزائم کو نظریاتی پہچان دی۔یا پھر بات کریں وکرم سود کی جس نے false flag operation کو وطیرہ بنالیا۔ کشمیر کی وادیوں سے لے کر بلوچستان کے پہاڑوں تک، اُس کے نظریے نے خون بہایا، نفرت پھیلائی اور دشمنی کو ہوا دی۔ خود اجیت ڈوول نے تسلیم کیا کہ بھارت پاکستان کو اندر سے غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ اور پھر RAW کے سربراہان—سامنت گوئل، راوی سنہا—سبھی نے پاکستان کے خلاف پراکسی وار کو بڑھایا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا 26/11 ممبئی حملے واقعی اتنے سادہ تھے جتنے پیش کیے گئے؟ یا کیا یہ سچ نہیں کہ Hemant Karkare—جو ہندو انتہا پسندی کے خلاف کھڑا ہوا—اسی رات گولیوں کا نشانہ بن گیا؟ کسی نے اُس سازش پر سوال نہیں اٹھایا کیونکہ ’’بیانیہ‘‘ بن چکا تھا۔ اُری حملہ، پٹھان کوٹ، پلوامہ—یہ سب ایک ہی فلم کے مختلف سین تھے۔ اور ڈائریکٹر؟ جی ہاں، نریندر مودی۔ وہی مودی جس نے پہلے گجرات میں خون بہایا، اور اب پورے بھارت میں ہندو راشٹرا کے خواب دکھا رہا ہے۔ مگر آج—2025 کے سورج تلے—اس کا وہی چمکتا ہوا چہرہ گرد آلود ہو چکا ہے۔ “ساپھ سُتھرا بھارت”، “وشو گرو بھارت”, “ڈیجیٹل انڈیا”— یہ سب صرف ٹیگ لائنز رہ گئیں۔ حقیقت میں مودی کا بھارت جھوٹ، جبر، اور زہر کا نمونہ ہے۔ کشمیر میں 5 اگست 2019 کے بعد جو کچھ ہوا، دنیا نے دیکھا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ بھارت کے اندرونی زخم گہرے ہو چکے ہیں۔ منی پور جل رہا ہے، پنجاب سوال کر رہا ہے، اور دلی کے مسلمان سہمے ہوئے ہیں۔ اُنہیں دشمن کی ضرورت تھی، اور وہ دشمن ہمیشہ پاکستان تھا۔ اور اب بھی جب بھارت میں الیکشن قریب ہے، “پہلگام ڈرامہ” سامنے آ جاتا ہے۔ جیسے کسی ڈائریکٹر نے اسکرپٹ دیا ہو: ایک ٹورسٹ ایریا، کچھ جعلی خطرات، ایک فورس الرٹ، اور میڈیا پر شور—”دہشتگرد پاکستان سے آئے تھے!” لیکن اِس بار دنیا بھی تھک چکی ہے، اور شاید عوام بھی۔ انڈیا کے آرمی چیف جنرل منوج پانڈے کو فالس فلیگ آپریشن کے لئے ایک وقت کی تلاش تھی اور پہلگام واقع اچانک نہیں ہوا اس میں 6 ماہ کی بھارتی پلاننگ شامل تھی۔ اب امریکہ بھی وہ پرانا امریکہ نہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ (جن کا دوسرا دور 2025 میں شروع ہو چکا ہے) حال ہی میں کہہ چکے ہیں کہ:“Pakistan and India should resolve their issues by themselves.”یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ واشنگٹن بھی بھارتی ڈراموں سے بیزار ہو چکا ہے۔نریندر مودی اور ناتھو رام گوڈسے جس نے گاندھی کا قتل کیا اور مودی جو گجرات کا قصائی بنا دونوں میں نظریاتی، تنظیمی، اور تاریخی رشتہ ہے — دونوں RSS کے پیداوار ہیں، دونوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز سوچ کو بڑھایا، اور دونوں کے عمل میں “ہندوراشٹرا” کا خواب جھلکتا ہے۔ اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو ہماری خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے ہم امن کی خواہش رکھتے ہیں پر جواب دینے میں کچھ دیر نہیں لگے گی۔آج اگر کوئی ایک شخصیت ہے جس نے بھارت کو اُس کی زبان میں جواب دیا، تو وہ ہیں سپہ سالار جنرل عاصم منیر۔ اُنہوں نے نہ صرف دہشتگردوں کے سہولت کاروں کی کمر توڑی بلکہ افغانستان میں چھپے گروہوں کو یہ پیغام بھیجا کہ اگر پاکستان کی سرزمین پر خون بہایا گیا، تو جواب تمہارے گھر کی دہلیز پر دیا جائے گا۔ بالاکوٹ کی کہانی میں اگر درخت گرے، تو یاد رکھنا چاہیے—درخت گرانے والے ہاتھ ہمارے نہیں تھے۔ ہم نے اُس دن بھی امن کی بات کی، آج بھی کر رہے ہیں۔
لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو جواب دینے والے ہاتھ جنرل عاصم ملک جیسے جرأت مند افسران کے پاس ہیں—جو آج ڈی جی آئی ایس آئی کے منصب پر فائز ہیں، اور اپنے پیشرو جنرل نوید انجم کی طرح ہر محاذ پر چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان بھی بہترین حکمت عملی ہے جب بھارت مسلسل لائن آف کنٹرول اور سفارتی اخلاق کی دھجیاں اُڑا رہا ہے، تو ہمیں بھی ’شملہ معاہدہ‘ جیسے نظریاتی بوجھ سے نکل آنا چاہیے۔” انہوں نے بھارت کو بروقت منہ توڑ جواب دیا ہے جو قابل داد و تحسین ہے۔ یہ وہی سچ ہے جو
ہم نے EU DisinfoLab جیسے انکشافات سے دنیا کو دکھایا کہ بھارت کس طرح جھوٹ کے نیٹ ورک سے سچ کو دبانے کی کوشش کرتا رہا۔ جعلی تھنک ٹینکس، جھوٹی ویب سائٹس، اور پروپیگنڈا کے نیٹ—سب کچھ سامنے آ چکا ہے۔ لیکن بھارت کو صرف پراپیگنڈا کی فکر ہے، سچ کی نہیں۔ بھارت کی نئی چالیں دیکھیں—پانی کو ہتھیار بنانے کی کوشش۔
2023ء سے ہی بھارت Indus Waters Treaty کو غیر مؤثر بنانے کی سازش میں مصروف ہے۔ ورلڈ بینک ایک نیوٹرل سہولت کار کے طور پر معاہدے کو non binding رکھتا ہے وہ اس کے پراجیکٹس میں اضافے کے لئے مالی معاونت کر سکتا ہے۔ بھارت اگر سچ میں پانی روکنا بھی چاہے تو اسے 10,15 سال صرف ایک نئی منصوبہ بندی کے لئے لگیں گے اور بھاری لاگت آئے گی جو فی الحال ہوتا نظر نہیں آتا اور 64 سال پرانا معاہدہ ختم کرنا کار بے کار ہی لگتا ہے۔ “پاکستان کوئی فلمی ولن نہیں، نہ ہی کسی نریندر مودی کی ضرورت کے تحت بنا دشمن۔ پاکستان ایک حقیقت ہے—ایک ایٹمی ریاست، ایک زندہ قوم، ایک بے مثال فوج کے ساتھ۔ ہم امن چاہتے ہیں، مگر غیرت ایمانی اور غیورانہ عزم رکھتے ہیں۔”
آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ اگر اب بھی اوچھے ہتھکنڈوں سے بھارت باز نہ آیا تو پھر بھارت ماتا تیار رہو ابو آرہے ہیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں