دو برس قبل جنگلی حیات کی تحفظ کی این جی او نے اسلام آباد کی ہائی کورٹ میں آوارہ کتوں کی سی ڈی اے کے ذریعے ہلاکت کو چیلنج کیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس نے کتے جان سے مارنے پر پابندی عائد کی ۔ جو ابھی تک برقرار ہے ۔ ہائی کورٹ نے احکامات جاری کئے تھے کہ کتوں کی نسل کشی کے لئے ڈاگ سینٹر قائم کیا جائے ۔ کچھ عرصہ تک تو یہ سینٹر کام کرتا رہے ۔
بنیادی طور پر سینی ٹیشن کے محکمہ کی ذمہ داری تھی۔ بعد ازاں یہ سینٹر بھی بند کر دیا گیا ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آوارہ اور لا وارث کتوں کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ وہ ویران جگہوں کی بجائے تجارتی مراکز میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ گذشتہ کچھ دنوں نے ایف سیون اور ایف سکس جیسے پوش علاقوں میں غول در غول نظر آتے ہیں اور روزانہ کسی نہ کسی جگہ سے شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ کتوں نے بچوں اور خواتین کو کاٹ لیا تھے ۔ جس کے بعد ان کا لمبا علاج ہوتا ہے اور انجکشن لگوانے پڑتے ہیں جنگلی حیات این جی او کی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی بچوں کے ساتھ دشمنی واضح ہوتی جا رہی ھے یہ وہی این جی او ہے جس نے عدالتوں کے ذریعے پہلے مونال ریسٹورنٹ مسمار کرایا اور ہائی کورٹ کے ذریعے اسلام آباد کا چڑیا گھر بند کرایا ۔ اب اسی چڑیا گھر کی جگہ ہفتہ وار بازار لگایا جاتا ہے جو کہ ایم سی آئی کا جاب ہے ۔ لیکن اس تنظیم میں پاکستان کی با اثر خواتین شامل ہیں وہ جو چاہے کریں۔ آوارہ کتوں کا معاملہ بھی اسی تنظیم نے بگاڑا ھے پہلے سینی ٹیشن محکمہ میں گن مین بھرتی کئے تھے جو آج بھی بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں ۔ وہ کتوں کو مار کر زمین میں دفن کرتے تھے ۔ اب شہر کے مضافات ترنول -بہارہ کہو ۔ روات ۔ پی ڈبلیوڈی – سید پور – ترامڑی – کھنہ – سوہان۔ مارگلہ ٹاؤن ۔ راول ٹاؤن – چک شہزاد – بری امام – قائد اعظم یونیورسٹی ۔ شاہ اللہ دتہ – ایچ تیرہ سی ڈی اے کے سیکڑوں میں کتے غول در غول نظر آتے ہیں جن سے عورتیں اور بچے محفوظ نہ ہیں ہسپتالوں میں روزانہ درجنوں مریض کتے سے کاٹے کے لائے جاتے ہیں۔ جبکہ ان کے ٹیکے سوائے ایک ہسپتال کے کہیں میسر نہیں ہیں ۔ سی ڈی اے کے چیرمین چوہدری محمد علی رندھاوا جو کہ آئی سی ٹی کے گورنر کی بھی حیثیت رکھتے ہیں ان کو چاہیے کہ کتے پکڑنے کے لئے سینی ٹیشن ۔انوائرمنٹ اور ڈی ایم اے کی ٹیمیں تشکیل دیں جو ان کو پکڑ کر مارنے کی بجائے دور دراز علاقوں میں چھوڑ کر ائیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی اپیل ہے کہ وہ کتوں کو مارنے کے حکم امتناعی کو ختم کریں ۔ اگر کتوں کی تلفی پر کام نہ کیا گیا تو آئندہ چند ماہ تک بہتات ہو جائے گی ۔ چیرمین سی ڈی اے چو ہدری محمد علی رندھاوا سے اپیل ہے کہ وفاتی دارالحکومت میں ستر کی دہائی سے قائم چڑیا گھر بحال کرائیں اور قیمتی زمین واگزار کرانے کے احکامات جاری کریں ۔
