23

ڈی ایم اے – فوڈ اتھارٹی اور تاجر تحریر : خالد چوہدری

ڈائریکٹوریٹ آف میونسپل ایڈمنسٹریشن ایم سی آئی لوکل گورنمنٹ کا انتہائی اہم ادارہ ہے ۔ گزشتہ پانچ ماہ سے یہ ادارہ لاوارث تھا ۔ ڈاکٹر ثانیہ پاشا صاحبہ کے پاس ایڈیشنل چارج تھا۔ جبکہ ان کے پاس لینڈ ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داریاں تھیں اور وہ انتہائی مصروف رہتی تھیں ۔ اللہ اللہ کر کے لاہور سے بیروکریٹ اسٹنٹ کمشنر ڈاکٹرانم کا بطور ڈائریکٹر ڈی ایم اے تعینات ہوگئیں۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے بورڈز کی وجہ سے بلیو ایریا میں ایکشن لیا اور متعدد دکانیں سیل کر دیں۔ ملنے کے لئے جانے والے تاجر نمائندوں سے ان سے ملنے کی کوشش کی تو کارڈ کے جواب میں بتایا گیا کہ وہ کسی سے نہیں ملتیں ۔ افسوس ہے کہ لاہور میں ڈیوٹی سر انجام دینے والی افسر کو اسلام آباد کے ” پبلک ڈیلنگ ادارہ میں تعینات کر دیا گیا ۔ حالانکہ اگر کوئی سی ڈی اے کا مقامی افسر لگایا جاتا تو زیادہ بہتر تھا ۔ اللہ جانے آئیندہ ان کا رویہ کیسا ہوگا ۔ سنا ہے کہ وہ وفاقی وزیر داخلہ سید محسن نقوی کی قریبی عزیزہ ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا رویہ شاید منفرد ہے۔ بہر حال ڈی ایم اے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت وجود میں آیا اور کھانے پینے کی اشیاء کا کاروبار کرنے والوں کو لائسینس جاری کرتا ہے جس کے لئے ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ والے ویکسینشن کرتے ہیں ۔ اور جو وقتاً فوقتاً ٹیکس میں تاجروں نمائیندوں کو اعتماد میں لے کر اضافہ کرتے رہتے ہیں تین سال قبل وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں معیاری کھانے کے لئے ایک فوڈ اتھارٹی تشکیل دی جیس کےلئے آئی سی ٹی نے بھرتی کی ۔ قانون کے مطابق فوڈ اتھارٹی کا ایک بورڈ بنایا گیا جس میں اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے صدر – فوڈ مینو فیکچرنک کے نمائندہ اور ریسٹورنٹ والوں کو نمائندگی دی گئی۔ جبکہ ایک جدید ترین فوڈ لیبارٹری بنانے کے لئے قانون سازی کی گئی ۔ تین سالوں میں بورڈ کی صرف ایک میٹنگ ہوئی ۔ کوئی بھی قانون بنتا ہے تو اس کے رولز بنائے جاتے ہیں۔ لیکن ابھی تک کوئی رولز نہ بنائے جا سکے ہیں ۔ بھاری جرمانے اور لائسینس فیس نافذ کی گئی لیکن ابھی تک ان کی کینٹ سے منظوری نہ لی گئی ۔ جبکہ فوڈ اتھارٹی کی طرف سے جرمانوں اور لائسینس فیس کا گزٹ نوٹیفیکشن جاری نہ ہو سکا ہے۔ اب ڈائریکٹر ڈی ایم اے کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ فوڈ کا کاروبار کرنے والوں کے لائسینس بنانا بند کرے ۔ اس طرح ایم سی آئی کی آمدن ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے لیبارٹری نہ ہونے کی وجہ سے کوالٹی انگلیوں سے چکھ کر چیک کی جاتی ہے۔ اور بلا وجہ نوٹس دیکر تاجروں کو پریشان کیا جاتا ہے۔ رمضان مبارک میں دن کے وقت ریسٹورنٹ بند ہوتے ہیں جبکہ گزشتہ برس بند ریسٹورنٹس کو چالان اور جرمانے کے نوٹس دیئے گئے۔ اگر اس مرتبہ بھی ایسا ہوا تو سخت ری ایکشن ہوگا ۔ امید ہے چیف کمشنر چوہدری محمد علی رندھاوا فوڈ اتھارٹی کے معاملات کا کو نوٹس لیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں