ٹرانس جینڈر۔۔خدا کی یہ مخلوق کہاں جائے؟
وقار فانی
”کسی انسان کو اس کے وجود پر شرمندہ کرنا، خالقِ کائنات کی تخلیق پر اعتراض کے مترادف ہے،جو مخلوق خدا کی نظر میں کامل ہے وہ انسانوں کی نظروں میں حقیر کیسے ہو سکتی ہے“خدا کی ہر مخلوق عظمت کی علامت ہے، مگر جب بات”ٹرانس جینڈر“کی ہو تو معاشرے کا رویہ یکسر بدل جاتا ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہب، ثقافت اور روایات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مگر جب بات معاشرے کے کمزور طبقوں کی ہو، خاص طور پر ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی تو ہماری زبانیں خاموش، آنکھیں بند اور دل بے حس ہو جاتے ہیں۔ٹرانس جینڈر افراد ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں، جنہیں نہ صرف خدا نے پیدا کیا بلکہ ان کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں جتنے ایک مرد یا عورت کے۔ اسلام میں کسی بھی مخلوق کے ساتھ ظلم و زیادتی کی سخت ممانعت ہے مگر بدقسمتی سے ہماری سوسائٹی میں خواجہ سراؤں کو تضحیک، مذاق اور بیزاری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بے راہ روی پر مجبور کر دیا جاتا ہے،انہیں بھکاری بنا دیا گیا ہے۔یہ بہت تھوڑے ہیں مگر یہ بہت سوں کو متاثر کر رہے ہیں۔آئے روز یہ خبر پڑھنے اور سننے کو ملتی ہے کہ خواجہ سرا کو بلاکر ہوس پوری کی اور قتل بھی کر دیا گیا۔ان کی روزانہ کی ہاتھ پھیلا پھیلا کر مانگی گئی رقم تک چھین لی جاتی ہے۔سنا تھا کہ ان کی بددعا جلدی لگتی ہے،ظالم یہ بھی بھول گئے اور بد دعا سے بھی ڈرنا چھور دیا گیا ہے۔ہمارے معاشرے میں انکی بابت بات ہوتو نامی گرامی مہاتما یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ یہ مغربی ایجنڈا ہے۔ہمارے ہاں پیدا ہونے والے کو گھر سے نکال دیا جانا اور سڑکوں پر کھلے آسمان تلے چھوڑ دینا کیا مغربی ایجنڈا ہے؟کیسے سنگدل والدین ہوتے ہیں جو اپنی ہی اولاد کو معاشرے کے بے رحم لوگوں کے آگے پھینک دیتے ہیں۔یہ کیسی غیرت ہے،یہ کیسی انسانیت ہے؟ انہیں تعلیم، روزگار، علاج اور وراثت کے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مغلیہ دور میں خواجہ سرا اہم ریاستی عہدوں پر فائز رہے۔ وہ بادشاہوں کے رازدار، محل کے محافظ اور عدالتوں کے نگران ہوتے تھے۔شہر پاک میں کلید بردار کون ہیں کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی؟ یہ وہی خواجہ سرا ہیں جنہیں آج ہم سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور کر چکے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا“ (سورۃ القمر: 49)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”مخلوق پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا“(ترمذی شریف)
2018ء میں پاکستان نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ منظور کیا تھاجس کے تحت انہیں اپنی شناخت کا حق، تعلیم و صحت کی سہولیات اور وراثت میں حصہ دینے کا قانونی حق دیا گیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون صرف کاغذوں کی حد تک محدود رہے گا؟آج بھی خواجہ سرا بچپن میں ہی اپنے گھروں سے نکال دیے جاتے ہیں، مدارس اور سکول ان کا خیرمقدم نہیں کرتے، ہسپتال انہیں ترجیح نہیں دیتے اور معاشرہ ان کی موجودگی سے نظریں چراتا ہے وہ انصاف کے دروازے پر بھی سوالیہ نشان بن کر رہ جاتے ہیں۔مغربی دنیا میں انسانی حقوق، مساوات اور شخصی آزادی کو بنیادی اقدار تصور کیا جاتا ہے۔ ان ہی اصولوں کے تحت ٹرانس جینڈر افراد کو بھی شناخت، عزت اور قانونی تحفظ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔گزشتہ دہائیوں میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، نیدرلینڈز اور دیگر یورپی ممالک میں ٹرانس جینڈر افراد کو نہ صرف قانونی شناخت دی گئی بلکہ انہیں صحت، تعلیم، روزگار اور شادی جیسے شعبوں میں بھی مساوی حقوق دیے گئے۔ کئی ممالک میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے مخصوص ہیلپ لائنز، میڈیکل سہولیات اور سرکاری عہدوں پر کوٹہ بھی رکھا گیا ہے۔امریکہ میں کچھ ریاستیں ایسی بھی ہیں جہاں ٹرانس جینڈر افراد کو فوج میں بھرتی ہونے، بچوں کو گود لینے، اور سرکاری دستاویزات میں اپنی شناخت بدلنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ برطانیہ میں ”Gender Recognition Act 2004” اور کینیڈا میں ”Bill C-16” جیسے قوانین ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ برطانیہ کی سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلے میں متفقہ طور پر قرار دیا ہے کہ مرد و عورت صرف دو ہی جنس ہیں۔ججز نے مزید لکھا کہ قانونِ مساوات (Equality Act 2010) میں عورت کی تعریف قانونی صنفی بنیاد پر نہیں بلکہ حیاتیاتی جنس کی بنیاد پر کی جائے گی یعنی نومولود کس جنس کے طور پر پیدا ہوا۔ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر کوئی ٹرانس جینڈر خاتون کسی خواتین کے لیے مخصوص مقام پر روکی جاتی ہے تو وہ اب یہ دلیل نہیں دے سکتی کہ اسے خاتون ہونے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔عدالت نے موقف اختیار کیا کہ یہ فیصلہ کسی ایک فریق کی فتح یا دوسرے کی شکست نہیں بلکہ قانون کی تشریح کا معاملہ ہے۔ججز نے مزید واضح کیا کہ یہ قانون ٹرانس جینڈر افراد کو بھی امتیازی سلوک سے بچاؤ فراہم کرے گا۔ اگرچہ مغرب میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو قانونی اور سماجی سطح پر زیادہ پذیرائی حاصل ہے مگر حقیقی مساوات کی منزل ابھی بھی دور ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں بات کرنے، احتجاج کرنے اور عدالت جانے کی آزادی موجود ہے جو کہ بہت سی ترقی پذیر اقوام کے لیے ابھی بھی ایک خواب ہے۔یہ لازم ہے کہ مغرب ہو یا مشرق ”ٹرانس جینڈر“کو انسان سمجھا جائے، ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور ان کے وجود کو عزت و وقار کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی سوچ بدلیں، ہمیں ٹرانس جینڈر کو”ٹرانس جینڈر“کے طور پر صرف قبول ہی نہیں، بلکہ عزت و احترام دینا ہوگا۔ انہیں تعلیم و روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے تاکہ وہ بھی باعزت زندگی گزار سکیں۔کیونکہ سوال صرف ان کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے۔کیونکہ یہ بھی خدا کی مخلوق ہیں اور خدا کی کوئی مخلوق بے مقصد نہیں ہوتی۔
