اسلام آباد(سدھیر احمد کیانی)تلہاڑ، گوکینہ، سنگھڑہ ،مکھنیال اور کھاریاںکے رہائشی اور مونال کے سابق ملازمین نے کہا ہے کہ ذاتی جنگ میں ہزاروں غریب ملازمین کو بے روزگار کر دیا گیا ہے،مارگلہ ہل نیشنل پارک قانون کو بنیاد بنا کر 113 میں سے صرف دو کاروباری عمارات کو نشانہ بنایا گیا ، ایک بسےبسائےسسٹم کا بیڑا غرق کر دیاگیا، سابقہ چیئر پرسن اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ رائنا سعیداور لیگل ایڈوائزر چیئرپرسن وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اسلام آبادعلی گیلانی نے میڈیا پر ہماری بھوک اور بے روزگاری کا مذاق اڑایا،انہیں ہمیں گھروں میں آکر معافی مانگنا ہو گی،ان خیالات کا اظہار تلہاڑ، گوکینہ، سنگھڑہ ،مکھنیال اور کھاریاںکے رہائشی اور مونال کے سابق ملازمین راجہ شکیل زمان،محمد سعید عباسی،ضمیر احمد و دیگر نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا،متاثرین کا مزید کہنا تھا کہ اس بیان سے بڑی تکلیف پہنچی ہے،سابقہ چیئر پرسن اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ رائنا سعیداور لیگل ایڈوائزر چیئرپرسن وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اسلام آبادعلی گیلانی کو کیا پتہ غربت کیا ہوتی ہےکیونکہ ان لوگوں نے کبھی یہ دیکھا ہی نہیں تو یہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک نہیں کر پاتے کہ بھوک کسے کہتے ہیں ، بے روزگاری کسے کہتے ہیں، ان کو ہماری بھوگ اور بے روزگاری کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے تھا، یہ لوگ آ کر ہمارے گھروں کا حال دیکھیں ہمارے بچوں کا حال دیکھیں، ہماری بھوک کو محسوس کریں، جب تک یہ ہمارے پاس نہیں آکر ہمارے مسائل محسوس نہیں کرتے ، ہم اس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گےانہیں ہمارے پاس آکرنہ صرف ہماری بھوک محسوس کرنی پڑے گی بلکہ ہم سے معذرت بھی کرنی پڑے گی،مسابقہ مونال ملازمین کا مزید کہنا تھا کہ مارگلہ ہل نیشنل پارک دو حصوں میں تقسیم ہے،ایک طرف شاہ اللہ دتہ سے جہاں خانپور کی حدود آ جاتی ہے ، اس سے شروع ہو کے شاہدرہ تک جاتا ہے اور دوسرا وہ جو راول جھیل سے کلب روڈ ، شکر پڑیاں کا علاقہ ، اسلام آباد کلب، پولو کلب یہ سارے کا سارا مارگلہ ہل نیشنل پارک کا حصہ ہے، سی ڈی اے نے جو لسٹ بنائی اس میں 113 کمرشل ایکٹیوٹیز شامل ہیں جو مارگلہ ہل نیشنل پارک میں موجود ہیں، مارگلہ ہل نیشنل پارک کا ایک قانون ہے، مارگلہ ہلز اور اسلام آباد پیر سوہاوہ کیلئےکوئی علیحدٰہ قانون نہیںہے، جب قانون ایک ہے تو پھرتمام کمرشل ایکٹیوٹیز پر ایک جیسا قانون کیوں نہیں لگایا گیا ؟ صرف دو عمارتوں کو قانون کے نام پر نشانہ کیوں بنایا گیا بقیہ 111 دیگر اداروں پر اس قانون کا عمل درآمد کیوں نہیں کروایا گیا ؟ یہ عمارت سی ڈی اے نے 2006 میں سرکاری پیسے سے تعمیر کی جو 18 سال تک ایک قانون کے تحت چلتی رہی اور پھر اس قانون کو ایک نیا مطلب دے دیا گیا کہ ہوٹل کا لفظ تو ہے اس میں لیکن ریسٹورنٹ کا لفظ نہیں ہے اور اس کے بعد سر کاری پیسے سے بنائی ہوئی بلڈنگ کو توڑ دیا گیا اور ہزاروں ملازمین کوبے روز گار کر دیا گیا، ان ریسٹونٹس پر الزام یہ تھا کہ ان کی وجہ سےماحول خراب اوروائلڈ لائف کو نقصان پہنچا ہے،اسے سچ مانا جائے تو پھران کے مالکان جنہوں نے 18 سال تک کام کیا انہیں جرمانہ کیوں نہیں کیا گیا ، ان کو جیل کی سزا کیوں نہیں دی گئی نہ ہی اُن پہ جرم ثابت کیا جا سکا،مالکان چلے گئے اوراپنا کاروبار لے گئےمگرہمارا اور ہمارے علاقے کا بیڑا غرق ہو گیا،ہزاروں غریب لوگ بے روزگارہو گئے ،علاقہ ویران ہو گیا اور وہاں جرائم شروع ہو گئے، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ صرف اور صرف ایک ذاتی جنگ تھی جس کی وجہ سے دوریسٹورنٹس کو توڑ دیا گیا، اس کے بعد ہمیں دو ڈھائی مہینے یہ لارے لگاتے رہے کہ آپ کو یہاں کاروبار شروع کر کے دیں گے اور نوکریاں دیں گےمگر ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا،پانچ مہینوں میں یہ دو سے تین مرتبہ یہاں آئے ہیں اور نیچے ملبے کے اوپر درخت لگا گئے ہیں اور لوگوں کی انکھوں میں دھول جھوکنے کے لیے میڈیا والوں کو بلایاکہ درخت لگا رہے ہیں ، ان کے ساتھ تختیاں لگا دیں نیچے ملبہ پڑا ہوا ہےجو کہ آج بھی پڑا ہوا ہے اور اوپر ہلکی ہلکی مٹی پھینک کے ملبے کے اندر درخت لگائےگئے جو سارے سوکھ گئے ہیں، ایک درخت بھی زندہ نہیں ہے، اگر کنکریٹ سے مسئلہ تھا تو پھر باقی کنکریٹ بنائی کیوں نہیں گئی، انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام بے روزگار ہونے والے خواتین و افراد کو کاروبار کرنے کی اجازت دی جائے اور سابقہ چیئر پرسن اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ رائنا سعیدمتاثرین کیخلاف تضحیک آمیز روئیے اورغیر اخلاقی زبان استعمال کرنے پر ہماے گھروں میں آکر معافی مانگیںبصورت دیگر انک ے خلاف احتجاج جاری رہے گا
15