44

آئی سی سی آئی نے ٹیکس آرڈیننس 2025 کو مسترد کر دیا اسے معیشت کا گلا گھونٹنے کے مترادف قرار دے دیا

اسلام آباد (کا مرس رپورٹر) اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آئی سی سی آئی) کے صدر ناصر منصور قریشی نے ایک میڈیا بریفنگ میں حال ہی میں جاری کیے گئے ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2025 پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہزاروں تاجروں، صنعت کاروں اور سروس سیکٹر کی جانب سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت پہلے ہی کمزور ہے اور ایسے اقدامات سے مزید کمزور ہو گئی ۔ آئی سی سی آئی کے گروپ لیڈر طارق صادق، سینئر نائب صدر عبدالرحمان صدیقی، کونسل ممبران میاں اکرم فرید، محمد اعجاز عباسی، میاں شوکت مسعود، چیئرمین ایف پی سی سی آئی کیپٹل آفس کریم عزیز ملک اور کوآرڈینیٹر ایف پی سی سی آئی کیپٹل آفس سہیل ملک کے ہمراہ صدر قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ یہ صرف آئی سی سی آئی کی نہیں بلکہ پوری کاروباری برادری کی تشویش ہے۔
صدر قریشی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو وسیع اختیارات دینے کے آرڈیننس پر تنقید کی، جس میں بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے، کاروباری جگہوں کو سیل کرنے اور جائیدادیں ضبط کرنے کا اختیار شامل ہے۔ انہوں نے ان اقدامات کو آئینی تحفظات کی صریح خلاف ورزی قرار دیا، خاص طور پر انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 137(2)، جو اپیل کے منفی فیصلے کے بعد بھی ٹیکس دہندگان کو 30 دن کی تعمیل کی مدت فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کی لامحدود اتھارٹی خوف پیدا کرتی ہے، تجارت میں خلل ڈالتی ہے اور کاروباری اعتماد کو مجروح کرتی ہے۔ آئی سی سی آئی کے صدر نے ٹیکس افسران کو کاروباری احاطے کے اندر تعینات کرنے کے اقدام کی مزید مذمت کی اور اسے نفاذ کی ایک جارحانہ شکل قرار دیا جو رازداری اور کاروباری آزادی کے آئینی حقوق کی خلاف کے مترادف ہے۔ انہوں نے آرڈیننس کے وقت پر بھی سوال اٹھایا، جسے پارلیمنٹ کے اجلاس سے چند دن قبل ایک صدارتی حکم کے ذریعے منظور کیا گیا تھا، جس سے حکومت کے ارادے اور جمہوری اصولوں کے احترام پر شدید شکوک پیدا ہوئے ہیں۔ صدر قریشی نے نوٹ کیا کہ پاکستان کی صنعتی پیداوار مالی سال 2024 میں پہلے ہی 3.91 فیصد کم ہو چکی ہے، اور مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 22.5 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس تناظر میں اس قسم کی پالیسیاں کاروباروں کو غیر رسمی شعبے میں دھکیلنے یا انہیں مکمل طور پر بند کرنے پر مجبور کرنے کا خطرہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ 2018 اور 2022 کے درمیان ٹیکس چھاپوں میں اضافے کے باوجود، ایف بی آر کا اپنا ڈیٹا غیر رسمی معیشت سے ٹیکس وصولی میں بہت کم بہتری کو ظاہر کرتا ہے، یہ ثابت کرتا ہے کہ جبر سے اصلاحات نہیں ہوتیں۔
آرڈیننس کو معاشی گلا گھونٹنے کی کارروائی قرار دیتے ہوئے صدر قریشی نے اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ شفاف، پارلیمانی عمل میں شامل ہو اور مستقبل میں ٹیکس اصلاحات کی تشکیل میں کاروباری اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے۔ “ہم اس طرح کے من مانی اور غیر آئینی فریم ورک کے تحت کام کرنے کے بجائے اپنے کاروبار کو بند کرنا پسند کریں گے،”آئی سی سی آئی کے گروپ لیڈر طارق صادق نے مجوزہ ترمیم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے ایک “سخت قانون” قرار دیا جو ملک میں کاروبار کو شدید متاثر کرے گی ۔ انہوں نے تاجر برادری کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئی سی سی آئی کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔
کونسل ممبر میاں اکرم فرید نے تجویز دی کہ ایف بی آر کو ٹیکس نیٹ میں پہلے سے موجود افراد کو بار بار نشانہ بنانے کی بجائے اصلاحات کے ذریعے اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور رکاوٹوں کو دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے استدلال کیا کہ یہ طریقہ ٹیکس کی وصولی کو بڑھانے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں زیادہ موثر ثابت ہوگا۔
حاضرین میں نمایاں شخصیات میں عرفان چوہدری، وسیم چوہدری، ملک عبدالعزیز، روحیل انور بٹ، ملک محسن خالد، عمران منہاس، نوید ستی، محترمہ شمائلہ صدیقی سابق صدر عامر وحید، سابق سینئر نائب صدر فاد وحید، سابق نائب صدر خالد چوہدری، مقامی مارکیٹوں کے نمائندے اور آئی سی سی آئی کے صدر کے سینئر مشیر نعیم صدیقی شامل تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں